فضائے برق کیا رقص شرر کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فضائے برق کیا رقص شرر کیا
by نازش بدایونی

فضائے برق کیا رقص شرر کیا
کرشموں سے لڑے ان کی نظر کیا

خیال حور و کوثر سے ہے بدمست
غم دیں کی ہو واعظ کو خبر کیا

رہے گی حشر میں یاد مئے و جام
کیا ہے اور ہم نے عمر بھر کیا

تلاش درد ہے اہل ہوس کو
کشش ہے کھیل بکتا ہے اثر کیا

بنے ہیں تار دامن خار دامن
لگائے ہاتھ ان کو بخیہ گر کیا

انا الحق پر عبث ہے شور بے جا
نہ تھا یزداں کی صورت میں بشر کیا

نہ ہو مژگاں کو جنبش یہ گزر جائے
حیات عیش بھی ہے مختصر کیا

گرے تھے پھول کچھ شمع لحد کے
اڑا کر لے گئی باد سحر کیا

وہ دامن ہو تو رونے کا مزہ ہے
دکھائے جوش طوفاں چشم تر کیا

بنا رکھا ہے دیوانہ کسی کو
تمہارے حسن میں ہے یہ اثر کیا

حریف ربط ہے رسوائیٔ شوق
یہ ہنس کر کہہ گیا پیغامبر کیا

رہوں محروم ذوق مرگ الفت
مجھے تو کوستا ہے چارہ گر کیا

رہے جس دل میں سوز غم وہ دل ہے
رہے جس گھر میں تاریکی وہ گھر کیا

جنون عشق ہے اک چیز ناصح
تجھے سمجھائیں ہم آشفتہ سر کیا

محبت میں ہے دل کا آئنہ دل
تمنائیں ادھر سے ہوں ادھر کیا

سخن پرور ہے دور نا شناسی
سبق آموز ہو عرض ہنر کیا

تماشا گاہ حسرت چشم و دل ہیں
تجلی منحصر ہے طور پر کیا

کھلا یہ بھی شریک جام تھا یار
ہوئی خلوت کی توبہ پردہ در کیا

رقم لو پیر مے خانہ سے نازشؔ
تمہیں درپیش ہے حج سفر کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse