فصل گل میں نئیں بگھولے اٹھتے ویرانوں کے بیچ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فصل گل میں نئیں بگھولے اٹھتے ویرانوں کے بیچ
by ولی عزلت

فصل گل میں نئیں بگھولے اٹھتے ویرانوں کے بیچ
خاک دیوانوں کی وجدی ہے بیابانوں کے بیچ

وہ جلا مجنوں کے دل کا کوئلہ آتی تھی پھونک
ورنہ لیلہ کاہے کو جاتی بیابانوں کے بیچ

جیسے گرہیں دے کوئی زنار کا سبحہ بنائے
پر ہے کفر عشق تیوں ایمان کے دانوں کے بیچ

پر ہیں مشک تیر بختی سے مری سب دل کے گھاؤ
جس طرح لٹکے ہے زلف دلبراں شانوں کے بیچ

روح میری بھی نہیں چھوڑے گی رنگ سیر باغ
جوں بھری رہتی ہے بوئے گل گلستانوں کے بیچ

فصل گل آئی کہ زنجیروں کے سر پر نالے کر
ناچ اٹھے دیوانہ دستک دے کے زندانوں کے بیچ

لال ہو عشرت سے جوں گل ہنس اٹھے ہیں میرے گوش
یار کے آنے کی جوں پہنچی خبر کانوں کے بیچ

ہر سخن کو فخر ہے عزلتؔ توجہ سے مری
ہوں امام وقت دلی کے سخن دانوں کے بیچ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse