فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے
by اختر انصاری اکبرآبادی

فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے
یہاں بھی اپنے بیگانے سے نکلے

شفق کا رنگ گہرا کر گئے اور
جو شعلے میرے کاشانے سے نکلے

ذرا اے گردش دوراں ٹھہرنا
وہ نکلے رند میخانے سے نکلے

غم دل کا اثر ہر بزم میں ہے
سب افسانے اس افسانے سے نکلے

کیا آباد ویرانے کو ہم نے
ہمیں آباد ویرانے سے نکلے

جو پہنچے دار تک منصور تھے وہ
ہزاروں رند میخانے سے نکلے

نکلتے ہم نہ غم خانے سے اخترؔ
حسیں موسم کے بہکانے سے نکلے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse