فسردہ داغ جگر دل ربا نہیں رہتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسردہ داغ جگر دل ربا نہیں رہتا
by عبدالرحمان احسان دہلوی

فسردہ داغ جگر دل ربا نہیں رہتا
چراغ عشق کا ہرگز بجھا نہیں رہتا

بغل میں رشک سے دل دل ربا نہیں رہتا
خفا ہے یہ کہ تو مجھ سے خفا نہیں رہتا

ہمیشہ حسن سن اے بے وفا نہیں رہتا
کبھی زمانہ سدا ایک سا نہیں رہتا

بجھی جو شمع تو پروانوں پہ ہوا روشن
کہ بعد مرگ کوئی آشنا نہیں رہتا

کہاں وہ گریہ وہ نالہ وہ جاں بہ لب رہنا
کسی کا کام ہمیشہ بنا نہیں رہتا

خدانخواستہ تم تو صنم نہیں ایسے
تمہارے دل میں تو کینہ سدا نہیں رہتا

کہا جو میں نے کہ اے رشک ماہ گھر میں مرے
تو مہربانی سے کیوں اک ذرا نہیں رہتا

لگا یہ کہنے کہ ہاں ہاں ہے یہ بھی اپنا شوق
نہیں نہیں نہیں رہتا ہوں جا نہیں رہتا

جو مجھ کو کہیے میں آنکھوں سے ضبط گریہ کروں
مرا قصور نہیں دل مرا نہیں رہتا

یہاں مجھے ہی نصیحت کو ہیں سبھی موجود
وہاں تو ہوش کسی کا بجا نہیں رہتا

یہ داغ عشق ہے کیوں کر نہ گل کھلے اس کا
ہزار اس کو چھپاؤ چھپا نہیں رہتا

جو دل لیا ہے تو بوسہ بھی دو سمجھ رکھو
کہ بد معاملگی میں مزا نہیں رہتا

لگائی تاک ہے کیوں محتسب نے تجھ پہ دلا
اگر تو دختر رز سے بھلا نہیں رہتا

نہ کھینچ تیغ تو احسانؔ ناتوان پہ آہ
میاں یہ زور کسی کا سدا نہیں رہتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse