Jump to content

فسانۂ عجائب/نقل سوداگر کی بیٹی کی

From Wikisource



نقل سوداگر کی بیٹی کی، انگریز کا آنا، فریفتہ ہو جانا؛ آخر کو جان دینا دونوں کا


کلکتے میں ایک سوداگر تھا عالی شان۔ متاعِ ہر دِیار، تُحفۂ جوار جوار دُکان میں فراواں۔ اُس کی بیٹی تھی حسین، مہر طلعت، ماہ جبیں، سیمیں تن، کافرِ فرنگ، غارت گرِ لندن۔ غرض کہ اور تو اسباب سب طرح کا دُکان میں تھا؛ مگر گھر میں وہ زور رقم، طُرفہ ٹوم تھی۔ فرنگ سے ہند تک اُس کے حُسن کا چرچا تھا۔ روم سے شام تک اور بنبئی سے سورت تک اُس کی صورت کی دھوم تھی۔ اُستاد:

ہے رخنہ سازِ ایماں وہ زادۂ فرنگی

اِسلام اب کہاں ہے؛ عاصی، فرامِشن ہے

ہزاروں انگریز بِرِیز بِرِیز کرتے، اُس پر شیفتہ و بے تاب تھے۔ لاکھوں مسلمان سرگرداں، خستہ و خراب تھے۔ جب ہوا کھانے کو سوار ہو کر آتی تھی؛ راہ میں دو رویہ خلقت کی جان، اُس کی ہوا خواہی میں برباد جاتی تھی۔ گبر و ترسا اُس کا کلمہ پڑھتے تھے، یہود و نصاریٰ اُس کا دم بھرتے تھے، مسلمان دل و جاں نذر کرتے تھے۔ مُؤلف:

اُس لُعبتِ فرنگ کو دکھلا کے قاشِ دل

کہتا ہوں: چکھو، یہ دلِ بریاں کا توس ہے

اتفاقِ زمانہ، کوئی انگریز لندن سے تازہ وارد ہوا جلیلُ القدر، ذی شان، خوب صورت، نوجوان؛ شورِ عشقِ سودا خیز سر میں، سوز دل میں، مزاج بے شر، بے قراری آب و گِل میں۔ میرؔ:

تھا طرح دار آپ بھی، لیکن

رہ نہ سکتا تھا اچھی صورت بِن

قضا را، وہ آفت کا مارا کچھ اسباب لینے اُس کی کوٹھی میں آیا اور اُس غارت گرِ دین و ایمانِ ہر گبر و مسلماں سے دو چار ہوا۔ عشق گلے کا ہار ہوا۔ دیکھتے ہی متاعِ عقل، اثاثِ ہُوش و حواس گرہ سے کھو بیٹھا۔ دل سے ہاتھ دھو، دمِ نقد جان کو رو بیٹھا۔ اسباب خریدنے گیا تھا، سودا مول لیا۔ اُس نے مُشتری سمجھ، میزانِ محبت میں تُول لیا۔ ہاتھ پاؤں نے سَت، دل نے ہمت ہاری؛ دن دیے لُٹ گیا عشق کا بیپاری۔ جب اور کچھ تدبیر بن نہ آئی، خرید و فروخت کے حیلے میں آمد و رفت بڑھائی۔ پھر تو یہ حال ہوا، جُرأتؔ:

دن میں سو سو بار اب ہم اُن کے گھر جانے لگے

مُنہ چھپانے وہ لگے، ہم اُن پہ مر جانے لگے

سلف سے آج تک عشق چھپا نہیں، مشہور ہے۔ اس مُقدمے میں انسان مجبور ہے۔ میرؔ:

عشقِ بے پردہ جب فسانہ ہوا

مُضطرب کد خُدائے خانہ ہوا

جب یہ امر مُفصل سوداگر کے گوش زد ہوا، بہ پاسِ نام و نشاں خوف ذِلت و رُسوائی کا از حد ہوا۔ پہلے دونوں کو نصیحت کی، پَند کیا؛ پھر سلسلۂ آمد و رفت قطع، دیکھا بھالی کا رخنہ بند کیا۔ اُدھر شُعلۂ عشق نے بھڑک کر تاب و توان و شکیب و تحمل کو ہیزُمِ خُشک کی طرح جلا دیا، عقل کا چراغ بجھا دیا، صبر کا قافلہ لُٹ گیا، دامنِ ضبط ناتواں کے ہاتھ سے چھُٹ گیا، بے چارے صاحب کو چند عرصے میں سلامت نہ رکھا۔ میرؔ:

بستر خاک پر گرا یہ زار

درد کا گھر ہوا دلِ بیمار


خاطر افگار، خار خار ہوئی

جاں، تمنا کشِ نگار ہوئی


دل نہ سمجھا اور اضطراب کیا

شوق نے کام کو خراب کیا


رفتہ رفتہ سخن ہوئے نالے

لگے اُڑنے جگر کے پَر کالے

یہاں تک تپِ مُہاجرت اور دردِ مُفارقت سے حال درہم و برہم ہوا کہ صاحب بہادُر شِکستِ فاش اٹھا کے صاحبِ فِراش ہوا، دل و جگر سینے میں پاش پاش ہوا۔ حِس و حرکت کی طاقت نہ رہی، لینے کے دینے پڑ گئے۔ اُستاد:

مرض یہ پھیل پڑا ہے تپِ جُدائی سے

کہ پیٹھ لگ گئی یاروں کی چارپائی سے

جو جو اُس کے یار، مونِس و غم گُسار تھے؛ نصیحت و پند، قید و بند کرنے لگے۔ عورتوں کی بے وفائی، بُتوں کی سنگ دلی، معشوقوں کی کج ادائی بہت مُشرح سمجھائی؛ سود مند نہ ہوئی، خاطر میں نہ آئی۔ اُن سب میں ایک اُس دشمنِ جاں کا شفیق و غم خوار، وفا شعار تھا؛ کہنے لگا: کیوں جُویائے مرگ ہوا ہے! ظالم، یہ کیا کرتا ہے! اے ناداں، عدوئے دل، بدخواہِ جاں! اِس کا انجام ذِلت ہے۔ حاصل اس کا خفت ہے۔ یہ خیالِ مُحال اپنے دل سے نکال۔ زورقِ زندگانی، سفینۂ نوجوانی دیدہ و دانستہ ورطۂ ہلاکت میں نہ ڈال۔ اپنے کس و کو پر نظر کر۔ للہ دلِ خود رفتہ کو سنبھال۔ تو نے پِسرِ مِجِسٹن کی حِکایت نہیں سُنی کہ اُس پر کیا گُزری! یہ سُن کے، وہ حزیں با دِلِ غمگین پوچھنے لگا: کیونکر ہے؟