Jump to content

فسانۂ عجائب/مقدمہ

From Wikisource


مقدمہ

از مخمور اکبرآبادی


فسانۂ عجائب جس کے مصنف مرزا رجب علی بیگ سرورؔ تھے، اردو زبان کی ایک نہایت مشہور و معروف کتاب ہے۔ ہر چند یہ کتاب اُس طرز تحریر کا ایک مکمل نمونہ ہے جس کی بنیاد محض آوُرد اور تصنّع پر قائم ہے اور جس کے موضوع میں بھی کوئی خاص دلکشی نہیں مگر آج تک یہ کتاب نہایت مقبول ہے اور باوجود اُن تمام باتوں کے جو بظاہر معائب معلوم ہوتی ہیں، اس کتاب کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ باتیں جو عام نظروں کو معائب معلوم ہوتی ہیں ایک نقّادِ سخن کے نزدیک معائب نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک اپنے اندر ایک تاریخی خصوصیت پنہاں رکھتی ہے۔

فسانۂ عجائب کی اصلی اہمیت اردو زبان کی تاریخ کے سلسلہ میں معلوم ہوتی ہے۔ اس زبان نے موجودہ حالت تک پہنچنے کے لیے مختلف مدارج طے کیے ہیں اور ان میں ہر درجہ اپنے مقام پر ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اور ارتقائے زبان کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے بیش از بیش دلچسپیوں کا حامل ہے۔ ہر ایسے عہد کو جس کی زبان گذشتہ عہد کی زبان سے مُمَیَّز کی جا سکے ارتقا کی ایک کڑی کہا جاتا ہے اور ان تمام کڑیوں کے مجموعہ کا نام تاریخ ہے؛ اگر ایک بھی کڑی کھو جائے یا اس کی بابت پورے حالات مہیا نہ ہو سکیں تو تاریخ نا مکمل رہ جائے گی۔ چنانچہ اردو کی تدریجی ترقیوں کے زمانہ میں ایک وقت ایسا بھی گذرا ہے جب فارسی کا بہت چرچا تھا اور اہل علم اردو میں تصنیف و تالیف حتی کہ مراسلت کرنا بھی اپنے لیے باعث لذت سمجھتے تھے۔ آخر جب اردو کی جانب میلان ہوا تو نثر مقفیٰ اور دوسری قسم کی نثروں کو جس میں نثر معریٰ شامل نہ تھی اظہار خیال کا وسیلہ قرار دیا۔ رفتہ رفتہ یہ طرز تحریر باوجود نہایت محدود و مصنوعی ہونے کے نہ صرف رائج بلکہ مقبول ہو گیا۔ سرور نثر مُقفّیٰ کے بہترین لکھنے والے تھے اور فسانۂ عجائب ان کا شہ پارہ خیال کیا جاتا ہے۔ تاریخی حیثیت سے اس کتاب کی نہایت عزت کی جاتی ہے مگر اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ صرف یہی ایک سبب اس کے اعزاز کاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کتاب ادبی محاسن کا ایک مجموعہ ہے، جن کی ساری خوبیوں کو تفصیل کے ساتھ ظاہر کرنے کے لیے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔

سرور کے والد کا نام مرزا اصغر علی بیگ تھا اور وہ ایک نہایت معزز خاندان کے ایک فرد تھے۔ سرور کا سنہ پیدائش ۱۲۰۱ھ یا ۱۲۰۲ھ خیال کیا جاتا ہے سرور کے وطن کے متعلق بڑا اختلاف ہے۔ زیادہ لوگوں کا فیصلہ تو یہی ہے کہ سرور لکھنؤ کے باشندے تھے مگر واقعہ اس کے خلاف ہے۔ سرور کی تصانیف میں اس قسم کی شہادت موجود ہے کہ وہ لکھنؤ کے باشندے نہیں تھے اس لیے ظاہر ہے کہ ان کا آبائی وطن اکبر آباد تھا۔ چونکہ یہ مقام اس بحث کے لیے مناسب نہیں ہے اس لیے صرف یہ بتا کر کہ سرور کا وطن آگرہ تھا، یہ بات ختم کی جاتی ہے۔ سرور فارسی اور عربی میں دستگاہ کامل رکھتے تھے اور ان کی تربیتِ ذوق لکھنؤ کی رنگین و ادبی فضا میں ہوئی تھی۔ شاعری کی طرح سرور کو خطاطی میں بھی کمال حاصل تھا اور اس فن میں وہ محمد ابراہیم کے شاگرد تھے جن کا ذکر فسانۂ عجائب میں نہایت عزت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سرور کو موسیقی کے علم و فن دونوں شعبوں میں پورا کمال حاصل تھا مگر اس علم پر انھوں نے کوئی تصنیف نہیں چھوڑی۔ فن شعر میں سرور، آغا نوازش حسین عرف مرزا خانی متخلص بہ نوازش کے شاگرد تھے جن کا ذکر فسانۂ عجائب میں نہایت احترام کے ساتھ موجود ہے۔

سرور لکھنؤ کے قدیم نثر نگاروں میں ایک نہایت بلند پایہ استاد سمجھے جاتے ہیں اور نثر مقفّیٰ کے بڑے زبردست ماہر تھے۔ غالباً یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ اس طرز کے لکھنے والوں میں کوئی دوسرا نثّار، ایسا پیش نہیں کیا جا سکتا جو سرور سے دعوائے ہمسری رکھتا ہو۔ ایک انسان کی حیثیت سے سرور نہایت خوش مزاج، زندہ دل اور صحبت پسند آدمی تھے۔ اس کے علاوہ خوش گفتار اور حسین بھی تھے۔ ان خصوصیات کی بنا پر لوگوں کا ان کی جانب میلان تھا۔ شرف الدین میرٹھی اور غالب کے ساتھ ان کے خاص تعلقات تھے۔ غالب نے گلزار سرور پر ایک تبصرہ بھی لکھا ہے اور فسانۂ عجائب کے ذکر میں سرور کو اپنے عہد کا بہترین نثر نگار تسلیم کیا ہے۔

۱۲۴۰ھ میں سرور کانپور میں وارد ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ نواب غازی حیدر کے حکم سے جلا وطن کر کے سرور کو کانپور بھیجا گیا تھا۔ فسانۂ عجائب میں، صاف الفاظ میں، کانپور کی ہجو کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرور کو اس مقام سے کس قدر نفرت تھی۔

فسانۂ عجائب سرور نے یہیں تصنیف کیا اور ایک قصیدہ نواب غازی الدین حیدر کی شان میں اس امید پر لکھا کہ وطن عزیز کو واپس جانے کی اجازت مل جائے۔ آخر غازی الدین کے مر جانے کے بعد ایک قصیدہ نواب نصیر الدین حیدر کی شان میں اضافہ کیا اور مسودہ لے کر لکھنؤ آئے۔ ۱۸۲۴ء میں سرور نے اپنی نہایت مشہور و معروف کتاب فسانۂ عجائب تصنیف کی۔ ۱۸۴۶ء میں ان کی زوجہ نے انتقال کیا مگر اسی سال واجد علی شاہ والیِ اودھ نے سرور کو اپنے شعرائے دربار میں داخل کر کے پچاس روپے ماہوار تنخواہ مقرر کر دی۔ اس تقرر کا باعث بادشاہ کے ایک دوست قطب الدین مفتاح الملک قطب علی شاہ تھے جن کے ذریعہ سے پہلی مرتبہ سرور نے تاج پوشی کا قطعہ تاریخ پیش کر کے بادشاہ کے مزاج میں درخور حاصل کیا۔ ۱۸۴۷ء سے ۱۸۵۱ء تک سرور نے مختلف تصانیف کیں جن میں ’’شررِ عشق‘‘ سب سے زیادہ مشہور فسانہ ہے۔ یہ فسانہ نواب سکندر بیگم والیِ بھوپال کے حکم سے لکھا گیا۔ ۱۸۵۶ء میں امجد علی خاں رئیس سندیلہ کی فرمائش سے ’’شگوفۂ محبت‘‘ تصنیف کی گئی۔ اسی سال اودھ کا الحاق اور واجد علی شاہ کی جلا وطنی عمل میں آئی اور واجد علی شاہ کو کلکتہ جانا پڑا۔

اب سرور پھر بے یار و مدد گار ہو گئے اور ان کی پہلی سی عسرت و تنگ دستی عود کر آئی۔ چنانچہ سید قربان علی سرشتہ دار مسٹر کارینگی اور منشی شیو نرائن ملازم کمشنریٹ سے انھوں نے مدد چاہی۔ مگر ۵۷ء کے عذر نے سرور کو اس مدد سے بھی محروم کر دیا۔ لیکن سرور کی قسمت میں ابھی اچھا زمانہ باقی تھا۔ مہاراجا ایشری پرشاد نرائن سنگھ والیِ بنارس نے ۱۸۵۹ء میں انھیں بنارس بلا لیا اور بہت عزّت و اقتدار کے ساتھ اپنے یہاں رکھا۔ ’’گلزار سرور‘‘، ’’شبستان سرور‘‘ اور دیگر کتب شعر و نثر یہاں کے قیام کے زمانے کی تصانیف ہیں۔ مہاراجا شیودان سنگھ والیِ سلور نے بھی سرور کو اپنے یہاں دعوت دی۔ مہاراجا پٹیالہ نے ان کی لیاقت کا اعتراف جواہر نگار چوڑیوں کا ایک جوڑا بھیج کر کیا۔ سرور نے دہلی، لکھنؤ، میرٹھ اور راجپوتانہ کا بھی سفر کیا تھا۔ اپنے سفر کی تکالیف کا حال ایک خط میں درج کیا ہے جو انشائے سرور میں موجود ہے۔ یہ کتاب دلچسپ واقعات کا ایک نہایت دلکش مجموعہ ہے جس سے سرور کی زندگی کے بہت سے تفصیلات اور معاصرانہ واقعات پر روشنی پڑتی ہے۔ ۱۸۶۳ء میں سرور آنکھوں کا علاج کرانے کی غرض سے کلکتہ گئے اور وہاں مٹیا برج پر واجد علی شاہ سے ملاقات کی۔ مگر وہاں ان کی آنکھوں کو کوئی فائدہ نہ ہوا اور نا امید ہو کر واپس آنا پڑا۔ آخر لکھنؤ کے کسی مقامی ڈاکٹر سے آپریشن کرایا۔ اس کے بعد سرور بنارس گئے اور ۱۲۸۴ھ میں غالب کی موت سے ایک سال قبل انتقال کیا۔

سرور کو لکھنؤ سے نہایت محبت تھی۔ اِس محبت کا اظہار اُس ذکر سے بخوبی ہوتا ہے جو ’’فسانۂ عجائب‘‘ میں لکھنؤ کا کیا گیا ہے۔ بنارس کے قیام کے زمانے میں بھی سرور لکھنؤ کو اسی بے تابی سے یاد کرتے تھے جس طرح قفس میں کوئی بلبل اپنے آشیانۂ چمن کو یاد کرتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد میں لکھنؤ کی محبت شعرا کا تمغائے امتیاز سمجھی جاتی تھی۔ ناسخ اور ناسخ کے شاگرد نواب مہر کے کلام میں بھی اس قسم کے اشعار پائے جاتے ہیں۔

سرور کا بہترین کارنامہ جس نے ان کے نام کو صفحات اردو پر غیر فانی کر دیا ہے ’’فسانۂ عجائب‘‘ ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع و اسلوب کے اعتبار سے فرسودہ انداز پر لکھی گئی ہے اور فارسی کی عامۃ الورود کہانیوں کے رنگ میں ہے۔ اس کا قصہ محض خیالی ہے اور سحر بستہ صحراؤں، جادوگروں کی لڑائیوں اور اسی قسم کی بہت سی غیر فطری اور دور از قیاس مہمات کا ذکر کثرت سے موجود ہے۔ جہاں تک قصہ کا تعلق ہے اس کتاب میں سوائے بچوں کے، بڑوں کے لیے کوئی دلچسپی نہیں۔ بڑوں کی دلچسپی صرف اس کی زبان، مقفیٰ عبارت اور دیگر خصوصیات تک، جو بے شمار ہیں، محدود ہے۔ لکھنؤ کے رسم و رواج اور معاشرت کی جو تصویریں فسانۂ عجائب میں ملتی ہیں، دوسری جگہ دستیاب نہیں ہوتیں۔ سرور کا طرز تحریر اپنے رنگ میں نہایت مکمل ہے۔ گو یہ طرز نہایت مصنوعی ہے اور اس میں علمی تصانیف برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں، مگر اس طرز کے محدود دائرے کے اندر رہ کر بھی سرور نے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیے ہیں۔ بعض مقامات پر ایسی ایسی خوبیاں پیدا ہو گئی ہیں جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور سرور کی استادی کا قائل ہو جانا پڑتا ہے۔ مگر یہ رنگ اس زمانے کی ضروریات کے منافی ہے۔ پہلے زمانہ میں اس قسم کی نثر جو فارسی الفاظ اور تراکیب سے مزین نہ ہو نفرت کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔ مگر غالب نے اس جال سے نکلنے کی کوشش کی اور اس کی جرات نہایت قابل تحسین ہے۔

فسانۂ عجائب کا ابتدائی حصہ نہایت دلچسپ ہے اس لیے کہ اس میں اس زمانہ کی لکھنؤ کی زندگی کا حال درج ہے اور وہاں کے میلوں اور ادبی و دیگر تفریحات کا ذکر موجود ہے۔ سرور کی ایک یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان کے یہاں انسانوں کا ذکر نہیں بلکہ اشیا کا ذکر ہے۔ ان کی تصویریں اصلی نہیں بلکہ خیالی ہیں، یہ خصوصیت ذکر لکھنؤ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

سرور اپنے ہی اسلوب تحریر کے جال میں گرفتار ہو کر رہ گئے۔ نثر مقفیٰ کی دشواریاں حد سے زیادہ ہیں۔ اس لیے زبان کی خاطر، قصہ کو قربان کرنا پڑتا تھا۔ ایک طرف تو ان دشواریوں کا سامنا تھا جن کا مقابلہ کرنا دشوار تھا۔ دوسری طرف ان کا ترک کر دینا مقابلہ سے دشوار تر تھا۔ اس لیے چار و نا چار ان کا مقابلہ کرنا ہی پڑا اور جس قدر ممکن ہوا، دلچسپ بنا کر پیش کیا گیا۔ سرور کی تحریر میں عام طور پر روزمرہ کا لطف نہیں۔ قافیہ کی قید عبارت کی سلاست کو غارت کر دیتی ہے اور توجہ محض عبارت کی پیچیدگیوں میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ لکھنؤ کی محبت میں سرور نے میر اَمّن پر حملہ کر دیا ہے جو ایک نامناسب بات ہے۔ اس قسم کی کہانیوں میں کیریکٹر کا وجود عنقا ہوتا ہے مگر فسانۂ عجائب میں ملکہ مہر نگار کا کیریکٹر محبت، وفا داری، جرات، ذہانت اور عزم و استقلال کے اعتبار سے نہایت ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ انگریزی کے بہت سے الفاظ جا بجا استعمال کیے گئے ہیں جو غالباً سب سے پہلے اردو میں داخل ہوئے۔ دنیا کی ناپائیداری کے متعلق جو خطبہ بندر کی زبان سے بیان کرایا ہے وہ نہایت معنی خیز، پر اثر اور بلند مرتبہ چیز ہے۔ سرور کی تقلید میں دو کتابیں اور بھی لکھی گئیں۔ ایک جس کا نام ’’سروش سخن‘‘ ہے سید فخر الدین حسین خان سخنؔ دہلوی نے ۱۸۶۰ء میں لکھی اور اس میں سر سید پر تمسخر کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ دوسری ’’طلسم حیرت‘‘ ہے جسے محمد جعفر علی شیون لکھنوی نے ۱۸۷۲ء میں لکھا ہے، اس میں سرور اور لکھنؤ کی عزت و اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

۱۸۴۷ء میں سرور نے ’’سرور سلطانی‘‘ لکھی جو شمشیر خانی کا ترجمہ ہے1۔ اس کتاب میں فردوسی کے شاہنامہ کو مختصر طور پر فسانۂ عجائب کے طرز میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے، حالانکہ یہ طرز تاریخی واقعات لکھنے کے لیے نہایت ناموزوں ہے۔ اس کتاب میں ایک مقام نہایت دلچسپ ہے جو ہندوستان کی تعریف میں لکھا گیا ہے اور اس سے حب وطن کی بو آتی ہے۔ ۱۸۵۱ء میں سرور نے ایک دوسری کتاب جس کا نام ’’شرر عشق‘‘ ہے، تصنیف کی۔ اس میں ایک واقعہ جو بھوپال کے کسی صحرا میں پیش آیا، درج ہے۔ سارس کا ایک جوڑا جو باہمی محبت کے لیے مشہور ہے ایک جنگل میں پھر رہا تھا۔ نر کو کسی نے مار ڈالا۔ مادہ نے یہ دیکھ کر لکڑیاں جمع کر کے ان میں آگ لگا دی اور خود بھی ستی ہو گئی۔

۱۸۵۱ء میں ایک دوسری کہانی ’’شگوفہ محبت‘‘ ناظم اودھ کی فرمائش سے لکھی گئی۔ اس میں مہر چند کھتری کی پرانی کہانی نئے لباس میں پیش کی گئی ہے۔ اس میں واجد علی شاہ کی جلا وطنی اور کلکتہ کے سفر کا حال بھی درج ہے۔ بنارس میں سرور نے ’’گلزار سرور‘‘ مرتب کی جو فارسی کی حدائق العشاق کا ترجمہ ہے۔ اس میں عشق و روح کے مناقشے اور روح کی فوقیت کا ذکر ہے۔ اس کتاب کا موضوع مذہبی ہے مگر سرور کے اصلی رنگ میں لکھی گئی ہے۔

ایک صحیفہ میں غالب پر تبصرہ ہے اور یہ بھی مقفیٰ زبان اور قدیم مشرقی تبصرہ نگاروں کے انداز پر ہے۔ دوسری مشہور کتاب ’’شبستان‘‘ ہے جو الف لیلیٰ سے ملخص کی گئی ہے۔ یہ بہت رنگیں و مرصع کتاب ہے اور اس میں جا بجا اشعار کا استعمال ہے جو اسے اور بھی دلکش بناتا ہے۔ سرور کا ایک صحیفہ شہزادہ ایڈورڈ (بعدہٗ شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم) کی شادی کی مبارکباد پر ہے۔ اس میں برطانوی حکومت کی برکات نہایت پسندیدہ الفاظ میں درج کی گئی ہیں۔ سرور کے خطوط بھی جو انشائے سرور کے نام سے طبع ہوئے ہیں مقفیٰ عبارت میں ہیں۔

قدیم رنگ کے ایک مشہور انشا پرداز کی حیثیت سے سرور کی عظمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے مخصوص دائرہ عمل میں سرور ایک ممتاز شخصیت کا مالک ہے اور اس کا مرتبہ کسی دوسرے سے کم نظر نہیں آتا۔ مقفیٰ طرز عبارت جو پیچیدہ فقروں، مصنوعی ترکیبوں اور فارسی کے متعلق و غیر مانوس الفاظ سے لبریز ہوتا ہے کاروباری زمانے میں پسند نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس کا متروک ہونا لازمی ہے مگر اس کے متروک ہونے پر سرور کی شہرت اور کمال انشا پردازی پر جو مستقل اور غیر فانی چیزیں ہیں کوئی اثر نہیں پڑتا۔ سرور نے پرانے ہتھیار کا استعمال نہایت خوبی کے ساتھ کیا اور ایسے قوی اثرات چھوڑے ہیں جن کا محو کرنا نا ممکنات سے ہے۔ لکھنؤ، ارباب لکھنؤ اور معاشرت لکھنؤ کے جو مرقعے سرور نے چھوڑے ہیں وہ مستقل یادگار ہیں جو اصلی مٹ جانے کے بعد بحمد اللہ آج تک قائم ہیں اور انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہیں گی۔ سرور کی شہرت انشا پردازی نے ان کی شاعری اور خوش نویسی کی شہرت کو گھن لگا دیا اور یہی حال موسیقی کا ہوا۔ ان کا دیوان تو اب دستیاب نہیں ہوتا مگر جستہ جستہ اشعار اور غزلیں خود ان ہی کی تصانیف نثر اور مختلف گلدستوں میں نظر آ جاتی ہیں جن سے ان کی شاعرانہ حیثیت معلوم ہو جاتی ہے۔ فی الجملہ سرور ایک بلند شخصیت کا مالک تھا اور اردو علم ادب کی تاریخ میں اس کا نام زریں حروف سے ثبت ہے۔


سید محمد محمود رضوی مخمور اکبر آبادی
بی۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی۷ مارچ ۱۹۲۸ء

١۔ محققین سرور سلطانی کو شمشیر خانی کا ترجمہ تسلیم نہیں کرتے۔ (Yethrosh)