Jump to content

فسانۂ عجائب/رِہا ہونا اس گرِفتار دامِ سحر کا

From Wikisource



رِہا ہونا اس گرِفتار دامِ سحر کا جادو گرنی کے جال سے اور ملاقات ہونی ملکہ مہر نگار صاحبِ حسن و جمال سے، ملکہ کی طبیعت کا لگاؤ، تازہ شمشیر الفت کا گھاؤ، باہم کی چھیڑ چھاڑ، بناؤ کا بگاڑ، پھر ملکہ کے باپ سے ملنا، لَوح لے کے چل نکلنا


عشق ہے تازہ کار، تازہ خیال

ہر جگہ اِس کی ایک نئی ہے چال


کہیں آنسو کی یہ سرایَت ہے

کہیں یہ خوں چکاں حِکایت ہے


گَہ نمک، اِس کو داغ کا پایا

گہ پتنگا، چراغ کا پایا


کہیں طالب ہوا کہیں مطلوب

اِس کی باتیں غرض ہیں دونوں خوب


یہاں سے دَشْت نَوَرْدان وادِیِ سخن، جگر اَفگار و غُربَت زَدَگانِ پُر محن و سینہ ریش با پائے زخم دار و دلِ خار خار بیان کرتے ہیں کہ وہ مسافرِ صحرائے اَندوہ و حِرماں، عازِمِ سمت جاناں، بے توشَہ و زاد راہ، ہر روز با دِل پرسوز کراہ کراہ؛ بادیہ گردی کرتا، جیتا نہ مرتا؛ ایک روز نواح دل کشا و صحرائے فرح افزا میں گزرا۔ دیکھا کہ باغبان قدرت نے صفحہ دشت گل ہائے گونا گوں، مختلف رنگ، بوقلموں سے بہشت ہشتم، رشک صحن چمن بنایا ہے اور بوٹا پتا گھانس کا بہ ازگل باغ ارم، خجلت دہ نسرین و نسترن کر دکھایا ہے۔ گرد جدول آب رواں۔ چشمہ ہر ایک چشمہ حیواں۔ اور لکّہ ہائے ابر نے چھڑکاؤ سے عجب رنگ جمایا ہے۔ نسیم بہار اور درخت گل دار سے میدان رشک ختن و تاتار ہے۔ نہ کہیں گرد ہے نہ غبار ہے۔ درختوں پر فیض ہوا اور ترشح سے سرسبزی اور چمک کا جوبن ہے۔ گل ہائے خود رو سے جنگل نمونہ گلشن ہے۔

یہ تو مدتوں کا مسافت دیدہ، مسافرت کشیدہ تھا؛ وہ زمین خجستہ آئیں بہت پسند آئی۔ دل میں آیا: آج کی شب اسی جا سحر کیجیے، قدرت حق مد نظر کیجیے۔ ایک سمت زمین ہموار، درخت گنجان، چشمہ ہائے آب رواں دیکھ کے جا بیٹھا۔ جنگل کی کیفیت جی بے کل کرنے والی۔ جانوروں کی چھل بل، اچھل کود کی دیکھا بھالی۔ خوش فعلی کی سیر۔ کلیل میں وحش وطیر۔ بو باس ہر برگ و گل کی۔ دھوم دھام طائروں کے غل کی۔ بوٹے پتے کی نشو و نما۔ سرد سرد ہوا۔ کوسوں تک پہاڑ کی ڈانگ، اس پر عجائب غرائب نقاش ازل کے سانگ۔ ایک سمت ابر سیاہ گھرا۔ سرخ و سفید، اودی ساون بھادوں کی گھٹا۔ چرخ کہن نئے نئے رنگ بدلتا۔ کبھی بجلی چمک جاتی، آنکھ جھپک جاتی۔ رعد زور شور سے مے خواروں کو یہ سنا رہا، میر سوزؔ:

کی فرشتوں کی راہ، ابر نے بند

جو گنہ کیجیے، ثواب ہے آج

ندیاں نالے چڑھے، دریا بڑھے۔ جھیلیں، تالاب لب ریز۔ ڈیرے موج خیز۔ پپیہے کا مستوں سے مخاطِب ہونا، پی پی کہہ کہ آپی جان کھونا۔ کوئل کی کو کو اور توتو سے کلیجا منہ کو آتا تھا۔ مور کا شور، برق کی چمک، رعد کی کڑک، ہوا کا زور زور رنگ دکھاتا تھا۔ شام کا وقت، غروبِ آفتاب کا عالم، جانوروں کا درختوں پر بیٹھنا باہم۔ زمین پر فرش زمردیں یکسر بچھا، جہاں تک نظر جاتی، دھان لہریں لے رہا۔ آسمان میں رنگا رنگ کی شفق پھولی، شام اودھ کی سیر بھولی۔ ایک سمت قوس قزح، جسے دھنک کہتے ہیں، بہ صد جلوہ و شان فلک پر نمایاں؛ سُرخ، سبز، زرد، دھانی لکیریں عیاں۔ بلبل کے چہچہے، درخت سر سبز، لہلہے۔ کوسوں تک سبزہ زار، پھولوں کی بہار۔ کہیں ہرن چرتے، کہیں پرند سیر کرتے۔ کسی جا طاؤسانِ طنَّاز سرگرم رقص ناز۔ لب ہر چشمہ آب مرغ آبی و سرخاب۔ کبھی نمود ہونا ماہ کا، چکور کا دوڑنا، بھرنا آہ کا۔ دونوں وقت ملتے، اس دید کی خراش سے دل پاش پاش، زخم جگر چھلتے۔ یہ سیر جو ہجر جاناں میں نظر سے گزر جائے، کیوں کر دل ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو، چھاتی نہ بھر آئے، استاد:

کارِ اَخگر کرتی ہے ہر بوند تن پر یار بِن

کیا عجب، گرہوں ہرے داغِ جگر برسات میں

قاعدہ ہے جب آدمی کو سامانِ عیش و نَشاط، اِس طرح کی سَیرِ فرحت و اِنبساط مُیَسّر ہوتی ہے؛ جسے پیار کرتا ہے، وہ یاد آتا ہے۔ شہزادے نے مُدّت کے بعد یہ فرحت و فِضا جو دشت میں پائی، یار کی یاد آئی، آنکھیں بند کر کے کہا، شعر:

میں وہ نہیں جو کروں سَیرِ بوستاں تنہا

بہشت ہو تو نہ مُنہ کیجے باغباں، تنہا

اِس سوچ میں بیٹھا تھا، ایک طرف سے سواری کا سامان نظر آیا۔ ’’ادب‘‘ اور ’’ملاحظہ‘‘ کا غُل، ’’تفاوُت‘‘ اور ’’قرینے‘‘، ’’نگاہ رو بہ رو‘‘ کا شُور بلند پایا۔ غور جو کیا، رنڈیوں کا غول سامنے آیا۔ یہ گھبرایا؛ دھوکاپا چکا تھا، جنگل میں غُوطہ کھا چکا تھا۔ سنبھل بیٹھا اور اَسمائے رَدّ سحر پڑھنے لگا، بہ موجِبِ مثل: دودھ کا جَلا چھاچھ پھونک پھونک پیتا ہے۔ جب وہ آگے بڑھیں، غَور سے دیکھا: چار پانچ سَے عورت پری زاد، حور وَش، غیرتِ سَرو، خجلت دِہِ شَمشاد، زَرّیٖں کمر، نازک تَن، سیٖم بَر، چُست و چالاک، کم سِن، اَلَّڑھ پنے کے دن، اچھلتی کودتی، مردانہ وار پیادہ؛ اور جَواہِر نِگار ہَوا دار پر ایک آفتابِ محشر سوار، گِرد پریوں کی قطار، تاجِ مُرَصَّع کج سر پر، لباسِ شاہانہ پُر تکلف دَر بَر، نیمچۂ سلیمانی اُس بلقیس وَش کے ہاتھ میں، سیماب وَشی بات بات میں، صید کرنے کی گھات میں۔ اور بندوقِ چَقماقی خاص لندن کی، طائِرِ خیال گِرانے والی برابر رکّھے؛ شکار کھیلتی، سَیر کرتی چلی آتی ہے۔ حُسنِ خداداد بے مِثال، کاہِشِ بَدر، غَیرتِ ہِلال، عجب سِن و سال۔ مِیر حَسَن:

برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن

جوانی کی راتیں، مُرادوں کے دن

طالِعِ بِیدار یاوَر، اِقبال دَم ساز۔ غَمزہ و عِوہش جلو میں۔ انداز و ادا رَو میں۔ آفتِ جانِ عاشِق، سرمایۂ ناز۔ جان عالم نے بہ آوازِ بلند کہا، میرتقی:

کیا تنِ نازک ہے، جاں کو بھی حسد جس تَن پہ ہے

کیا بدن کا‌ رنگ ہے، تہہ جس کی پیراہن پہ ہے

یہ صدا، جو اہتمام سواری آگے آگے کرتی تھیں، ان کے کان میں پڑی اور نگاہ جمالِ جان عالم سے لڑی، دفعتاً سب کی سب لڑکھڑا کر ٹھٹھک گئیں۔ کچھ، سکتے کے عالم میں سہم کر جھجھک گئیں۔ کچھ بولیں: ان درختوں سے چاند نے کھیت کیا ہے۔ کوئی بولی: نہیں ری! سورج چھپتا ہے۔ کسی نے کہا: غور سے دیکھ، ماہ ہے۔ ایک جھانک کے بولی: باللّٰہ ہے مگر چودہویں کا چاند ہے۔ دوسری نے کہا: اس کے روٗبہ روٗ وہ بھی ماند ہے۔ ایک نے غمزے سے کہا: چاند نہیں تو تارا ہے۔ دوسری چٹکی لے کے بولی: اُچھال چھَکّا! تو بڑی خام پارا ہے۔ ایک بولی: سرو ہے یا چَمنِ حُسن کا شمشاد ہے۔ دوسری نے کہا: تیری جان کی قسم پَرِستان کا پری زاد ہے۔ کوئی بولی: غضب کا دِل دار ہے۔ کسی نے کہا: دیوانیو! چپ رہو! خدا جانے کیا اسرار ہے۔ ایک نے کہا: چلو نزدیک سے دیکھ، آنکھ سینک کر دل ٹھنڈا کریں۔ کوئی کھلاڑن کہہ اٹھی: دور رہو، ایسا نہ ہو اسی حسرت میں تمام عُمْر جل جل مریں۔ ایک نے خوب جھانک تاک کے کہا: خدا جانے تم سب کے دیٖدوں میں چربی کہاں کی چھا گئی ہے، کیا ہوا ہے! یہ تو بھلا چنگا، ہٹّا کٹّا مردُوا ہے۔

سواری جو رُکی، ملکہ نے پوچھا خیر ہے؟ سب نے ڈرتے ڈرتے دست بستہ عرض کی: قربان جائیں، جان کی امان پائیں تو زبان پر لائیں، ہمیشہ سواری حضور کی اِس راہ سے جاتی ہے، مگر آج خلافِ معمول اِن درختوں سے ایک شکل دل چسپ ایسی نظر آتی ہے کہ، فرد:

سنا یوسف کو، حسینانِ جہاں بھی دیکھے

ایسا بے مثل طرح دار نہ دیکھا نہ سنا

ملکہ متعجب ہو کے پوچھنے لگی: کہاں؟ ایک نے عرض کی: وہ حضور کے سامنے۔ جیسے ملکہ کی نگاہ چہرۂ بے نظیر، صورتِ دل پذیر جان عالم پر پڑی، دیکھا: ایک جوان، رشک مہِ پیرِ کنعاں، رعنا، سرو قامت، سہی بالا، بحرِ حسن و خوبی کا دُر یکتا، کاسۂ سر سے فَرِّ شاہی نمایاں، بادۂ حسنِ دل فریب سے معمور ہے۔ دماغِ کشوَرستانی ہے، اٹھتی جوانی ہے، نشۂ شباب سے چَکناچُور ہے۔ خمِ ابرو محراب حسیناں، سجدہ گاہِ پردہ نشیناں۔ چشمِ غزالی سرمہ آگیں ہے۔ آہوئے رَم خوردۂ کِشورِ چیں ہے۔ چِتون سے رمیدگی پیدا ہے۔ مستِ مے محبت ہے، اِس پر چوکنّا ہے۔ دیدے کی سفیدی اور سیاہی لیل و نہار کو آنکھ دکھاتی ہے۔ سوادِ چشم پر حور سُوَیدائے دل صدقے کیا چاہتی ہے۔ حلقۂ چشم میں کتنے ہموار مَردُمِ دیدہ دھرے ہیں۔ صانعِ قدرت نے موتی کُوٹ کُوٹ کے بھرے ہیں۔ مِژَہ نکیلی اس کماں ابرو کی دل میں دوسار ہونے کو لَیس ہے۔ رشکِ لیلیٰ یہ غیرتِ قیس ہے۔ ناوَکِ نگاہ سے سِپَرِ چرخ تک پناہ نہیں۔ دل دُوزی بے گناہوں کی اِس کی ملت میں صواب ہے، گناہ نہیں۔ لَوحِ پیشانی، تختۂ سیمیں یا مَطلعِ نُور ہے، یا طباشیرِ صُبح یا شمع طُور ہے۔ کاکُل مشکیں سے زلفِ سنبل کو پریشانی ہے، بوباس سے خُتَن والوں کے ہوش خطا ہوتے ہیں، حیرانی ہے . عنبریں مویوں کی زندگی وبال ہے۔ بال بال پر پیچ و خم دار ہے۔ روئے تاباں بسانِ چشمہ حیواں ظلمت سے نمودار ہے۔ ہما اپنے پَر و بال سے اس صاحب اقبال کا مگس راں ہے۔ رخ تابندہ کی چمک سے نیر اعظم لرزاں ہے۔ لب گل برگِ تَرپر سبزے کی نمود ہے، یا دھواں دھار مشتاقوں کے دل کا دود ہے۔ نظر جھپکتی ہے، تجلی قدرتِ ربِ وَدود ہے۔ ہر حلقہ گیسوئے مُعَنبر کا کمندِ گرَہ گیر ہے؛ مگر بالوں کے الجھنے سے کھلتا ہے کہ کسی کی زلفِ پیچاں کا خود بھی اسیر ہے۔ خندہ دنداں نما سے ہونٹ، لعل بدخشاں کا رنگ مٹاتا ہے۔ دانتوں کی چمک سے گوہرِ غلطاں بے آب ہو کر لوٹا جاتا ہے۔ معشوقوں کا ان پر دانت ہے، دل و جاں وارتے ہیں۔ جو نظر سے پنہاں ہوں، ڈاڑھیں مارتے ہیں۔ دم تقریر دُرجِ دہاں جو کھولتا ہے، سامع موتی رولتا ہے۔ ہر کلمہ اعجاز نما ہے، بیمارِ محبت کا مسیحا ہے۔ دونوں ہاتھ نہالِ الفت کی شاخِ باردار ہیں، دل کی دست بردی کو اور خزانہ قاروں بانٹ دینے کو سر دست تیار ہیں۔ کفِ دَست کی لکیر میں دست آویز محبت یدِ قدرت سے تحریر ہے، سر نَوِشت سے یہ کھلتا ہے کہ سلسلہ الفت میں کسی کے، رگ و پے بستۂ زنجیر ہے۔ مِر آتِ سینہ میں عکس افگن کوئی صاحب جمال ہے، مد نظر کسی کا خیال ہے۔ کمرِ نازک جستجو پر چست باندھی ہے، گو بیٹھا سست ہے؛ چلنے کو مثلِ صبا آندھی ہے۔ پاؤں وادیِ تلاش میں سرگرمِ رفتارہیں۔ زِیرِ قدم دَشت و کُہسار ہیں۔ مگر قسمت اپنی بَرسَرِ یاری ہے کہ ہمارے دام میں یہ ہُمائے اَوجِ شَہر یاری ہے۔

یہ تصور دل میں تھا کہ کار پَردازانِ محکمۂ ناکامی حاضر ہوئے اور مشّاطۂ حُسن و عشق نے پیش قدمی کر مَتاعِ صبر و خِرَد، نَقدِ دل و جاں، اَثاثِ ہُوش و حَواس، تاب و تَوانِ ملکۂ جگر فِگار اَرمَغانِ رونُمائی میں نَذرِ شہ زادۂ والا تَبار کیا۔ عقل و دانش گم، صُّمٌّ بُکمٌ کا نقشہ ہوا۔ حضرتِ عشق کی مدد ہوئی، سب بلا رَد ہوئی۔ شوقِ وصل دل میں پیدا ہوا، جی شیدا ہوا۔ دفعتاً کیا تھا، کیا ہوا۔ میر تقی:

تھی نظر، یا کہ جی کی آفت تھی

وہ نظر ہی وَداعِ طاقت تھی


ہُوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ

صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ


دل پہ کرنے لگا تَپیٖدن ناز

رنگ چہرے سے کر گیا پرواز

ملکہ تھرتھرا کر ہَوا دار پر غش ہوئی۔ خَواصوں نے جلد جلد گُلاب اور کیوڑا، بید مشک چھڑکا۔ کوئی نادِ علی پڑھنے لگی۔ کوئی سورۂ یوسف دَم کرنے کو آگے بڑھنے لگی۔ کسی نے بازو پر رو مال کھینچ کر باندھا، تَلوے سَہلانے لگی۔ کوئی مِٹّی پر عِطر چھڑک کر سنگھانے لگی۔ کوئی بید مُشک سے ہاتھ منہ دھوتی تھی۔ کوئی صدقے ہوہو روتی تھی۔ کوئی بولی: چہل کنجی کا کَٹورا لانا۔ کسی نے کہا: یَشب کی تختی دھو کے پِلانا۔ کسی نے کہا: بِلا رَیب آسیب ہے۔ کوئی بولی: اُسی کے دیکھنے سے دل نا شکیب ہے۔ کوئی بولی: یہ تو عجب چمک کا ماہ پارہ ہے؛ اِس کا دیکھنا یہ رنگ لایا، گویا چاندنی نے مارا ہے۔ کوئی سمجھی: یہ شخص ہم جِنس نہیں، قسمِ جِن سے ہے۔ کوئی بولی: دیوانیو! یہ غَشی تقاضائے سِن سے ہے۔

غَرض کہ دیر میں ملکہ کو اِفاقہ ہوا، مگر دل مُضطرِب، تَپاں۔ خواہش اُسی طرف کَشاں۔ جَذبِ عشق سے مقناطیٖس و آہَن کا عالَم۔ کشش مَحبت سے کاہ و کَہرُبا اُسی دَم ہو گئی۔ رنگِ رو طائرِ پَریٖدہ۔ صبر و ضبط دامن کَشیدہ۔ مَشوَرہ ہوا سواری اِدھر سے پھیرو، ملکہ کو بیچ میں گھیرو، لیکن تابِ تحمل، یارائے جبر ملکہ کو بالکل نہ رہا، اُس بدحواسی میں کہا تو یہ کہا: دیوانیاں ہو، یہ کوئی مسافر بے چارہ، خانماں آوارہ، غُربت کا مارا تھک کر بیٹھ رہا ہے، اِس سے ڈرنا کیا ہے! قریب چلو، حال پوچھو۔ ناچار، وہ سب فرماں بردار چلیں؛ مگر جھجکتی، ایک دوسرے کو تکتی۔ جوں جوں سواری قریب جاتی تھی، ملکہ کی چھاتی دھڑکتی تھی، دل میں تڑپ زیادہ پاتی تھی۔ اگرچہ جمالِ پری تمثالِ ملکہ مہر نگار بھی سحر سامری کا نمونہ، مَہ و مِہر سے چمک دمک میں دونا، عابد کُش، زاہد فریب تھا؛ جان عالم بھی بے چین ہوا، مگر دامنِ ضبط دَستِ اِستقلال سے نہ چھوڑا۔ جس طرح بیٹھا تھا، جنبش نہ کی، تیور پر میل نہ آیا۔

ایک خَواصِ خاص بہ اِشارۂ ملکہ آگے بڑھی، پوچھا: کیوں جی میاں مُسافر! تمھارا کدھر سے آنا ہوا؟ اور کیا مصیبت پڑی ہے جو اکیلے، سوائے اللہ کی ذات، ہیہات، کوئی سنگ نہ ساتھ، اِس جنگل میں وارد ہو؟ شہ زادے نے مسکرا کر کہا: مصیبت، خَیلا، تجھ پر پڑی ہو گی۔ معلوم ہوا یہاں آفت زدے آتے ہیں، ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ کہو تم سب کی کیا کم بختی، اَیّاموں کی گَردِش، نصیبوں کی سختی ہے، جو خاک پھانکتی، مسافروں کو تاکتی جھانکتی، چُڑیلوں کی طرح ناکام سرِشام پھرتی ہو! سوکھے میں مسافروں پر پھسل پھسل کے گرتی ہو۔

ملکہ یہ کلمہ سُن کے پھڑک گئی اور ہوا دار آگے بڑھا خود فرمانے لگی: واہ وا صاحب! تم بہت گرما گرم، تُند مزاج، حاضر جواب، پا بہ رکاب ہو۔ حال پوچھنے سے اِتنا درہم برہم ہوئے، کڑا فقرہ زبان پر آیا۔ اِس مُردار کے ساتھ، تھوتھو، مجھ چھٹ سب کو پِچھل پائیاں بنایا۔ جان عالم نے کہا: اپنا دستور نہیں کہ ہر کس و ناکس سے ہم کلام ہوں۔ دوسرے، مُردار سے بات کرنا مکروہ ہے؛ مگر خیر، دھوکے میں جیسا اُس نے سوال کیا، ویسا ہم نے جواب دیا۔ اب تمھارے منہ سے مُردار نکلا، ہم سمجھ گئے، چُپ ہو رہے۔ ملکہ نے ہنس کر کہا: خوب! یک نہ شُد دو شُد۔ صاحِب! چونچ سنبھالو، ایسا کلمہ زبان سے نہ نکالو۔ کیا میرے دشمن دَرگور مُردار خور ہیں؟ آپ بھی کچھ زور ہیں! بھلا وہ تو کہہ کے سن چکی، میں آپ سے پوچھتی ہوں: حضور والا کس سمت سے رونق افروز ہوئے، دولت سَرا چھوڑے کَے روز ہوئے؟ اور قُدومِ میمنت لُزوم سے اِس دشتِ پُرخار کو کیوں رشکِ لالہ زار کیا، بارِگرانِ سفرِ غربت کب سے سر پر لیا؟

جان عالم نے کہا: چہ خوش! آپ در پردہ بناتی ہیں، بگڑ کر طنز سے یہ سناتی ہیں۔ ہم حضور کاہے کو، مزدور ہیں۔ آپ اپنے نزدیک بہت دور ہیں۔ جیتے جی چار کے کاندھے چڑھی کھڑی ہو، بے شک حضور ہو۔ عارضی جاہ و حَشَم پر مغرور ہو۔ جو جو جلیسیں تھیں، بولیں: ملکۂ عالم! آپ کس سے گفتگو دو بدو کرتی ہیں! یہ مردُوا تو لٹھ ہے، سخت منہ پھٹ ہے۔ ملکہ بولی: چپ رہو، اِن باتوں میں دَخل نہ دو۔ اگر یہ بد مزہ ہو جائے گا تو صَلواتیں سنائے گا۔ وہ سب ہٹیں، آپس میں کہا: خدا خیر کرے! آج جنگل میں گُل پھولا چاہتا ہے، یہ پردیسی پنچھی راہ بھولا چاہتا ہے۔ پھر ملکہ بولی: اے صاحب! خدا کے واسطے کچھ منہ سے بولو، سر سے کھیلو۔ نذر، بھینٹ جو درکار ہو، لے لو۔ جان عالم نے کہا: اُمرائیت کو کام نہ فرماؤ، نیچے آؤ۔ یہ ہمیں معلوم ہوا تم بڑی آدمی ہو۔ سواری مانگے کی نہیں۔ خواصیں بھی تمھاری ہیں، جو ہمراہِ سواری ہیں۔ خاک نشینوں کی ہَم بِستری اختیار کرو، تکلف تَہ کر رکھو۔ طبیعت حاضر ہو گی تو تمھارے بیٹھنے سے، کچھ کہہ اٹھیں گے۔ آپ ہوادار کیا، ہوا کے گھوڑے پر سوار؛ فقیر بسترِ خاک پر سایہ دار۔ حافظ:

بَبیں تفاوُتِ رہ از کجا ست تا بکُجا

ملکہ نے کہا: مدت العمر میں ایسا مسافر جَریدہ، دَہن دَریدہ تمھارے سوا، بہ خدا، نہ دیکھا نہ سنا۔ اُستاد:

زباں سنبھالو، یہ منہ زوریاں غریبوں پر

خدا کی سوں کوئی تم سا بھی بد لگام نہیں

زور چیز ہو، کتنے بے تمیز ہو۔ یکّہ و تنہا، ٹٹّو نہ گھوڑا؛ پیادہ پائی میں لحاظ پاس نہیں، سب کو چھوڑا۔ گٹھری نہ بُقچَہ، ننگا لُچّا۔ وہی مَثَل ہے: رہے جھونپڑے میں، خواب دیکھے محلوں کا۔ ہر بات میں ٹھنڈی گرمیاں کرتے ہو۔ جو یہی خوشی ہے تو لو؛ یہ کہہ کے ہوادار سے اتر، زمین میں شہ زادے کے برابر بیٹھ گئی۔

خواصوں نے بہت بھیانک ہو کے کہا: لو بی بی، یہ مُوا کیا سحربیاں، جادو کا انسان ہے! ملکہ سی پری کو، گالیاں دے دے کے، کیسا شیشے میں اُتار لیا! بیٹھے بٹھائے میدان مار لیا۔ ایک بولی: تجھے اپنے دیدوں کی قسم، سچ بولیو، ایسا جوان رنگیلا، سَجدار، نکیلا، ٹھٹھول، طرّار، آفت کا پَرکالہ، دنیا سے نرالا؛ تو نے یا کبھی تیری ملکہ نے دیکھا بھالا تھا؟ اری دیوانی، نادان! خوب صورتی عجب چیز ہے۔ اِس کا دوست طالِب، دشمن کا مطلوب ہے۔ حُسنِ خوب سب کو مرغوب ہے، جہان کو عزیز ہے۔ غرض کہ جب ملکہ بیٹھی، جان عالم دمِ سرد بھر کے بول اُٹھا، لا اَعلم:

چہ گویم از سر و سامانِ خود ، عمریست چوں کاکُل

سیہ بختم، پریشاں روزگارم، خانہ بردوشم

مولف:

سراسر دل دُکھاتا ہے، کوئی ذکر اور ہی چھیڑو

پتا خانہ بدوشوں سے نہ پوچھو آشیانے کا

گرِفتارِ رنج و اَلَم، خوشی سے دور، مبتلائے غم، بے یار و مددگار، دوست نہ غم خوار، آفت کا مارا، خانماں آوارہ، ہمہ تن یاس، باختہ حواس۔ توشۂ راہ بجُز غمِ جاں کاہ نہیں اور رہبر سِوائے دلِ مُضطر ہمراہ نہیں۔ گو پاؤں میں طاقتِ رفتار نہیں، لیکن ایڑیاں رَگڑنا بھی اِس راہ میں ننگ و عار نہیں۔ یہ حال ہے، وہ سب نام ہیں؛ کوہ و دَشت اپنے مَسکَن، مقام ہیں۔ آدمی مجھ سے رَم کرتے ہیں، جانور رام ہیں۔ اور حال یہ ہے، میر سوزؔ:

ظاہر میں گرچہ بیٹھا لوگوں کے درمیاں ہوں

پر، یہ خبر نہیں ہے میں کون ہوں، کہاں ہوں


اے ساکنانِ دُنیا! آرام دو گے اک شب

بچھڑا ہوں دوستوں سے، گُم کردہ کارواں ہوں


ہاں اہلِ بزم! آؤں میں بھی، پر ایک سُن لو

تنہا نہیں ہوں بھائی، با نالہ و فغاں ہوں


سوراخ، چاک لاکھوں، داغوں کی کون گنتی

گلشن دل و جگر ہے، گو صورتِ خزاں ہوں


نام و نشاں نے یا رب، رسوا کیا ہے مجھ کو

جی چاہتا ہے، حق ہو، بے نام و بے نشاں ہوں


سر مانگتا ہے قاتل، قاصد! شتاب لے جا

اتنی سبک سری پر کاہے کو سرگراں ہوں


قاتل پکارتا ہے، ہاں کون کُشتَنی ہے!

کیوں سوز چُپ ہے بیٹھا، کچھ بول اٹھ نا ہاں ہوں


یہ پڑھ کر چُپ ہو رہا، ملکہ سمجھی: یہ مُقَرر شاہ زادۂ عالی تَبار ہے، مگر کسی کا عاشقِ زار ہے۔ بات میں یہ تاثیر ہے کہ ہر کلمہ، ناوَک کا تیر ہے۔ دل میں آیا کسی طرح گھر لے چلیے، پھر مفصل حال معلوم ہو جائے گا، کہاں تک چھپائے گا۔ بہ مِنت و سَماجت کہا: اے عزیز! یہ سَر زمیں ہمارے علاقہ میں ہے۔ تم مسافرانہ، اتفاقاتِ زمانہ سے وارد ہو؛ مہمانی ہم پر واجب ہوئی۔ چند گام اور قَدَم رَنجَہ کیجیے، غریب خانہ قریب ہے۔ آج کی شب استراحت فرمائیے، نانِ خشک کھائیے۔ صبح اختیار باقی ہے، اتنی مشتاقی ہے۔

جان عالم نے تبسم کر کے کہا: پھر در پردہ امارت کی لی۔ یعنی، ہم تو یہاں کے مالک ہیں، آپ بھوکے پیاسے سالک ہیں۔ چلو، یہ فقرہ کسی فقیر کو سناؤ۔ محتاج کو کرّ و فَر، جاہ و حَشَم سے دَبکاؤ۔ جادۂ اعتدال سے زبان کو باہر گام فرسا نہ فرماؤ۔ یہاں طبیعت اپنی اپنے اختیار میں نہیں اور رَوارَوی سے فُرصت قلیل ہے۔ مکان پر جانا، دعوت کھانا جبر ہے؛ آنے جانے کی کون سی سبیل ہے۔ ملکہ نے افسردہ خاطِری سے کہا: دعوت کا رد کرنا منع ہے؛ آئندہ آپ مُختار ہیں، ہم مجبور و ناچار ہیں۔ جان عالم نے دل میں خیال کیا: برسوں کے بعد ہم جِنسوں کی صحبت مُیَسَّر آئی ہے اور یہ بھی شاہ زادی ہے؛ اِس کا آزُردہ کرنا، نِری بے حیائی ہے۔ آدمیّت کا لحاظ، انسانیت کا پاس، اپنی بے اِعتنائی کا حِجاب کر کے کہا: کھانے پینے، سونے بیٹھنے کی ہَوَس دل سے اٹھ گئی ہے، مگر دل شِکنی کسی کی، اپنے مذہب میں گناہِ عظیم ہے، خدا اِس بات کا علیم ہے۔ شعر:

عِوض ہے دل شکنی کا بہت مُحال، اے یار

جو شیشہ ٹوٹے، تو کیجے جواب شیشے کا

لیکن اتنی رُکھائی اور یہ کج ادائی جو ظہور میں آئی؛ معاف کیجیے، اِس کا یہ سبب تھا، شعر:

در محفلِ خود راہ مدہ ہمچو مَنے را

افسردہ دل، افسردہ کند انجمنے را

دل فِگاروں کی صحبت سے انسان کو ملال حصول ہوتا ہے۔ غمگیں کا ہم نشیں ہمیشہ مَلول ہوتا ہے۔ میر دردؔ:

نہ کہیں عیش تمھارا بھی مُنَغَّض ہووے

دوستو! دردؔ کو محفل میں نہ تم یاد کرو

اور جو یوں ہی مرضی ہے، تو بسم اللہ۔ یہ کہہ کے اٹھا۔ ساتھ ساتھ، ہاتھ میں ہاتھ، پیادہ پا باتیں کرتا چلا۔ بس کہ شاہزادہ لطیف و ظریف تھا؛ کوئی فقرہ نُوک چُوک، رَمز و کِنایہ، ذوٗ معنی سے خالی زبان پر نہ لاتا تھا۔ ملکہ کا ہربات پر دل پگھلا جاتا تھا، مگر دل سے کہتی تھی کہ اے ناکام و بخت نافرجام! ایسا نہ کرنا کہ ہاتھ ننگ و ناموٗس سے دھونا پڑے۔ بیٹھے بٹھائے اَلمِ مُفارَقت میں رونا، جان کھونا پڑے۔ ظاہر ہے یہ کسی کا عاشِقِ زار ہے۔ نَشَۂ محبت میں سرشار ہے۔ دوسرے، غریب الوطن۔ بقول میر حسن:

مسافر سے کوئی بھی کرتا ہے پیت

مثل ہے کہ جوگی ہوئے کس کے میت

مگر تَپِشِ دل مستقل ترقی میں تھی۔ خواہش، جی کی کاہش میں۔ بے قراری کو اس پر قرار تھا کہ خدا‌کے کارخانے میں کسی کو دَخْل نہیں ہوا۔ اے نادان! جو دمِ وَصل ہے، اسے غنیمت جان۔ آغاز عشق میں ‌انجامِ کار سوچنا سراسر خلاف ہے۔ اس میں شرع کی تکلیف معاف ہے۔ مؤلف:

غنیمت جان لے یہ صُحبتیں آپَس کی ناداں

دِگرگوٗں حال ہو جاتا ہے اک دم میں زمانے کا

القصہ تا درِ باغ با خاطرِ فراغ پہنچے۔ دروازہ کھلا، اندر قدم رکھا۔ جہاں فِضائے صحرا وہ تھی، وہاں کے باغ کا کیا کہنا! اگر ایک تختے کی صفت تحریر کروں، ہزار تختۂ کاغذ پر بہ خَطِّ رَیحاں اس گلزار کی تعریف نہ لکھ سکوں۔ دمِ تسطیرقلم میں برگ نکلتے، لکھنا بار ہوتا ہے۔ ہاتھ پاؤں بالکل پھولتے ہیں، صفحۂ قِرطاس پر گُل پھولتے ہیں؛ حاسِد شاخسانے نکالتا ہے، خار ہوتا ہے۔ صریرِ خامہ میں بلبل کے چہچہے پیدا ہوتے ہیں، باغبان کو حالت حال کی ہوتی ہے اور سطرِ پیچاں میں طائرِ مضموں پھنستے ہیں، بِعَینِہ کیفیت صیّاد کے جال کی ہوتی ہے۔ بہت آراستہ و پَیراستہ۔ عرض مربّع میں۔ چاروں کونوں پر چار بنگلے، گرد سبزۂ نو خاستہ۔ دروازہ عالی شان، نفیس مکان، زیرِ دیوار خندق پر کیلے؛ اکیلے نہیں، قطار در قطار۔ تختہ بندی کی بہار۔ رَوِش کی پَٹرِیاں قَرینے کی۔ منہدی کی ٹٹیوں میں رنگت مینے کی۔ گُل منہدی سرخ، زرد پر افشاں۔ عبّاسی کے پھولوں سے قدرتِ حق نمایاں۔ نرگس دیدۂ منتظر کی شکل آنکھیں دکھاتی تھی۔ گُلِ شَبّو سے بھینی بھینی بو باس آتی تھی۔ میوہ دار درخت یک لخت جُدا۔ بار کے بار سے ٹہنیاں جھکیں، درخت سرکشیدہ۔ پھل لطیف و خوش گوار۔ پھول نازک و قَطع دار۔ رَوِشیں بِلّور کی۔ نہریں نور کی۔ حوض و نہر میں فوارے جاری۔ چمنوں میں بادِ بہاری۔ موسَم کی تاک میں، تاک کا مستوں کی روش جھومنا۔ غُنچۂ سربستہ کا منہ تاک تاک کے، نسیم کا چومنا۔ انگور کے خوشوں میں دلِ آبلہ دار کا پتا۔ زَربَفت کی تھیلیاں چڑھیں، نگہبانی کو گوشوں میں باغبانِیاں اَلمَست کھڑیں۔

ہر تختہ ہرا بھرا۔ رَوِش کے برابر چینی کی ناندوں میں درختِ گُل دار مُعنبر و مُعطّر۔ بیلا، چنبیلی، موتیا، موگرا، مَدَن بان؛ جوہی، کیتکی، کیوڑا، نسرین و نَستَرَن کی نِرالی آن بان۔ ایک سمت تختوں میں لالہ خوفِ خزاں سے با دِلِ داغ دار؛ گرد اُس کے نافرمان کی بہار۔ سَرو، شمشاد لبِ ہر جو؛فاختہ اور قُمری کی اُس پر کو کو، حق سِرّہ۔ شاخِ گل پر بلبلِ شوریدہ کا شور۔ چمن میں رقصاں مور۔ کہیں خندۂ کبکِ دَری، کہیں تَدَر و بر سرِ جلوہ گری۔ نہروں میں قاز بلند آواز، تیز پرواز۔ کسی جا بَط اپنے ولولے میں خود غَلَط۔ ایک طرف قَرقَرے۔ دو رویہ درخت گل و بار سے بھرے۔ سیب سے زَنخِ گُلِ عِذاروں کی کیفیت نظر آتی۔ ناشپاتی اور بِہی آسیبِ دستِ باغباں سے بَری۔ ہر شاخ ہری۔ سُنبُلِ مُسلسل میں پیچ و تابِ زُلفِ مَہ وَشاں کا ڈھنگ۔ سوسَن کی اُداہٹ مِسی لَب خوب رویوں کا جوبن دکھاتی۔ داؤدی میں صنعتِ پروردگار عیاں۔ صد برگ میں ہزار جلوے نہاں۔ آم کے درختوں میں کیریاں زمرد نگار۔ مولسری کے درخت سایہ دار۔ باغبانیاں خوب صورت سرگرمِ کار۔ خواجہ سرا اَمرَد اُن کے مددگار۔ حور و غِلماں کا عالَم۔ بیلچے، کھرپیاں جواہر نگار، مرصع ہاتھوں میں باہم۔ درخت اور روشوں کو دیکھتی بھالتی، گل و بار چمن سے چُنتی؛ گلا برگ، سڑا بار، جھڑا پڑا خار صحنِ چمن سے نکالتی پھرتی تھیں۔

بیچ میں بارہ دری پُر شوکت و با رِفعت و شان، پرستان کا سا مکان۔ ہر کمرا سجا سجایا، صَنّاعِ نادِر دست کا بنایا۔ غُلام گردش کے آگے چبوترا سنگِ مرمر کا۔ حوض مُصفّیٰ پانی سے چھلکتا۔ فرش یک لخت افشاں پتھر کا۔ شامیانہ تمامی کا تنا۔ سفید بادلے کی جھالر، کلابتون کی ڈوریاں، سراسر مُغَرّق بنا۔ چودھویں رات، ابر کھلا، آسمان صاف، شبِ ماہ؛ سامان اِس کا تکلف کا، برسات کی چاندنی، سبحان اللہ! فواروں کے خزانے میں بادلا کَٹا پڑا، ہزارے کا فوارہ چڑھا۔ پانی کے ساتھ بادلے کی چمک، ہوا میں پھولوں کی مہک۔ فوارے نے زمین کو ہمسرِ آسماں بنایا تھا؛ ستاروں کے بدلے، بادلے کے تاروں کو بِچھایا تھا۔ بڑی چمک دمک سے ملکہ کے مکان پر چاندنی دیکھنے کا سامان تھا۔ شہ زادے کے آنے کا کسے گُمان تھا۔ غرض کہ جان عالم کو لے جا، شامیانے کے تلے مسندِ جواہر نگار پر بٹھایا۔ شرابِ ارغوانی و زعفرانی کی گُلابیاں کشتیوں میں لے کر، وہ وہ زَنِ پری پیکر زیب دِہِ انجمن ہوئی کہ بطِ مے رشک و خَجالت سے بحرِ ندامت میں غوطہ زن ہوئی۔ ایک طرف جام و سَبو، ایک سمت نغمہ سرایانِ خوب رو و خوش گُلو۔ سفید سفید صوفیانی پوشاک، سر سے پاؤں تک الماس کا زیور، دو رویہ صف باندھ کر کھڑی ہوئیں۔ اِن کے بیٹھتے ہی گانا ناچ شروع ہوا۔ سارنگی کے سُر کی زوں ٹوں کی صدا چرخ پر زہرہ کے گوش زَد ہوتی تھی۔ طبلے کی تھاپ، بائیں کی گُمگ خُفتگانِ خاک کا صبر و قرار کھوتی تھی۔ ہر تان اُپَج تان سین پر طعن کرتی۔ باربَد اور نِکیسا کے ہوش پَرّاں تھے۔ چھجّو خاں کو غش تھا، غلام رسول حیراں تھے۔ زَمزَمے اور تحریرِ گِٹکِری پر شوری زور شور سے ہاتھ ملتا تھا۔ ہر پسے فقرے اور سُر کے پلٹے پر الٰہی بخش پوربی کا جی نکلتا تھا۔

ناچنے کو ایسے ایسے برق وَش آئے اور اِس تال و سَم سے گھنگرو بجائے کہ للّوجی شرمائے۔ کَتھک جو بڑے استاد اَتھَک تھے، انھوں نے سَم کھائے۔ ٹھوکر، مردہ دلوں کی مسیحائی کرتی تھی۔ گَت کے ہاتھ پر یہ گَت تھی کہ مجلس کفِ افسوس ملتی تھی اور دمِ سَرد بھرتی تھی۔

جب ہنگامۂ صحبت بہ ایٖں نوبت پہنچا کہ راجا اِندَر کی محفل کا جلسہ نظر سے گر گیا، بہشت کا سامان پیش چشم پھر گیا؛ اُس وقت ملکہ مہر نگار نے گلاس شراب سے بھر کر شہزادے کو دیا، کہا: اِسے اُلُش کر دیجیے، تا رنجِ سفر خاطرِ انور سے دور ہو، مجھے استفسارِ حال ضرور ہے۔ جان عالم نے بہ اسبابِ ظاہر انکار کیا۔ مہرنگار نے کہا: آپ دل شِکنی بُری جانتے ہیں، اِس پہلوتہی کرنے میں ملالِ خاطر کے سوا کیا مُتَصوّر ہے؟ شہ زادے نے مسکرا کر ساغَر ہاتھ میں لیا، یہ شعر پڑھ کر باطبع شِگُفتہ پِیا، انشاؔ:

گر یار مے پلائے تو پھر کیوں نہ پیجیے

زاہد نہیں میں شیخ نہیں، کچھ ولی نہیں

پھر جان عالم نے جام لَبالَب اپنے ہاتھ سے بھر کر ملکہ کو دیا۔ دَورِ جام بے دَغدَغَۂ نیرنگیِ اَیام چل نکلا۔ دو چار ساغَر آبِ آتَش رنگ جوانی کی ترنگ میں پیہم و متواتر جو پیے، دونوں کو گونہ سرور ہوا۔ رنج سفر اِدھر سے، تمیز و خیالِ خیر و شر اُدھر سے دور ہوا۔ اُس وقت جان عالم نے کہا، میر دردؔ:

ساقیا! یہاں لگ رہا ہے چَل چَلاؤ

جب تلک بس چل سکے، ساغَر چلے

یہ سن کر، وہی خَواصِ گرما گرم، جس نے شہ زادے سے پہلے گفتگو کی تھی، ملکہ کی بہت مُنہ لگی تھی، آنکھ ملا کر بولی، بقاؔ:

لطفِ شبِ مہ اے ‌دل! اُس دم تجھے حاصل ہو

ایک چاند‌ بغل میں ہو، ایک چاند مُقابل ہو

ملکہ نے بہ حسرت فرمایا کہ مُردار! ہم تیری چھیڑ چھاڑ سب سمجھتے ہیں، کیا کریں افسوس کی جا ہے! حال اپنا مُوافقِ قولِ سوداؔ ہے، رفیع سوداؔ:

جو طبیب اپنا تھا، دل اُس کا ‌کسی پر زار ہے

مُژدہ باد اے مرگ! عیسی آپ ہی بیمار ہے

جان عالم نے یہ سُن کر، اسی خَواص کو سُنا کے مُتنَبِّہ کیا، استاد:

میں مسافر ہوں، مجھ‌سے دل نہ لگا

کیا بھروسا مرا، رہا نہ رہا

ملکہ ٹال کر حال پوچھنے لگی، کہا: تم کو قسم ہے پروردگارِ عالم کی، سچ کہو، تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کس کی تلاش میں خود رَفتہ، گھبرائے ہو؟ اس وقت جان عالم کو بجُز راستی، مفر نظر نہ آیا، کہا: ملکہ! میں شاہ فیروز بخت کا بیٹا ہوں، جان عالم نام ہے۔ سرزمین خُتَن وطن ہے۔ فُسْحَت آباد بیت السلطنت کا‌ مقام ہے۔ میں نے ایک توتا مُول لیا تھا، بہت طَرّار، سحر گُفتار۔ اس کی زبان سے شہرۂ حسنِ انجمن آرا سن کے؛ نادیدہ دیوانہ وار بے قرار، بیاباں مرگ، آوارہ وطن، موردِ رنج و مِحَن ہوا ہوں۔ پھر توتے کا راہ میں اڑ جانا، وزیر زادے کا پتا نہ پانا، شِمّہ بیانِ گرفتاریِ طلسم اور اپنی خواری، جادوگرنی کا نقشِ سلیمانی دینا اور اپنا رستہ لینا کہہ کر کہا: بے مُلکِ زرنگار پہنچے نہ جان کو چین ہے نہ دل کو قرار ہے، زیست بے کار ہے۔ اور یہ غزل پڑھی، مؤلف:

بہ سوزِ شمع رویاں، اِس طرح کا سینہ سوزاں ہوں

کہ رفتہ رفتہ آخر جلوۂ سروِ چراغاں ہوں


نسیمِ صبح ہوں، یا بوئے گل، یا شمع سوزاں ہوں

میں ہوں جس رنگ میں پیارے، غرض دم بھر کا مہماں ہوں


نہ پھل پایا لگانے کا، بجز افسوس و حسرت کے

میں نخلِ بے ثمر کس مرتبہ مردودِ دہقاں ہوں


عبث تدبیر ہے گور و کفن کی اس کے کوچے میں

میں ننگِ دو جہاں، ننگے ہی رکھ دینے کا شایاں ہوں


نہ مرتے مرتے منہ پھیرا محبت سے کبھی میں نے

جفائیں جس قدر جھیلیں، وفا پر اپنی نازاں ہوں


تنی رہتی ہے اکثر چادرِ مہتاب تربت پر

کہ تا معلوم ہو سب کو، قتیل مہ جبیناں ہوں


سرورِؔ غم رسیدہ ہوں، مجھے طوفان محشر میں

تِرانا تو ہی خاوندا! غریق بحر عصیاں ہوں

ملکہ نے جب سنا کہ یہ فریفتۂ جمالِ پری تمثالِ انجمن آرا ہے؛ آہِ دل دوز، نعرۂ جاں سوز کھینچ کر رونے لگی، امید قطع ہوئی۔ جان عالم نے بے قرار ہو کے کہا کہ اَیں ملکہ مہرنگار، خیر باشد! ملکہ نے اسی بے تابی میں جواب دیا، استاد:

مائل اس فتنہ عالم پہ کیا جو مجھ کو

سوئے بیداد مگر مرضیِ دَوراں آئی


چاک دل تک تو کچھ اے دست جنوں، پردہ تھا

یہ کھلا اب تو کہ نوبت بہ گرِیباں آئی

اے شہزادہ والا تَبار، غارت گرِ کشور دل، عاشق زار! میرا حال سن، مصر؏:

عجیب واقعہ و طُرفہ ماجرایے ہست

باپ میرا بھی شہنشاہ تھا، بہت سے تاج دار باج گزار تھے، مگر ابتدا سے طبیعت مُتَوجِّہِ فقر اور عبادت کی عادت تھی۔ آخِرکار، کارخانہ دنیائے دوں ہیچ و پُوچ جان کے، عزمِ وارَستگی ٹھان کے بَرزَباں ہر آن تھا، سوزؔ:

جب ہیچ ہی ہم بوجھ چکے وضعِ جہاں کو

غم ہیچ، الم ہیچ، طرب ہیچ، عطا ہیچ

اور حکومت کا بکھیڑا چھوڑا۔ معاملہ سلطنت بے کار جان اور بے ثَباتیِ جہانِ گذَراں مد نظر کر؛ دنیا سے ہاتھ اٹھایا، بادشاہت کو مٹایا، آبادی سے منہ موڑا، اس صحرائے پُرخار میں مکان بنا کے بیٹھ رہا۔ ہر چند مجھے شادی کو ارشاد کیا؛ میں نے بہ سببِ مفارقت، انکار کیا۔ اب دفعتاً آفتِ آسمانی، بلائے ناگہانی مجھ پر ٹوٹ پڑی کہ بہ یک نگاہ عاشق کیا، دیوانی ہو گئی، ہوش و حواس سے بے گانی ہو گئی۔ میرؔ:

رسوا ہوا، خراب ہوا، مبتلا ہوا

کیا جانیے کہ دیکھتے ہی مجھ کو کیا ہوا

اور تو اس کا عاشق و طلب گار ہے جس کا نظیر اِس زمانے میں ہاتھ آنا بہت دشوار ہے۔ میرؔ:

محمِل نشیں ہیں کتنے خدامِ یار میں یہاں

لیلیٰ کا ایک ناقہ، سوکس قطار میں یہاں

اب بَجُز مَرگ کیا چارہ! میں ننگ خانماں، خراب کُنِندَۂ خانداں، فقط ذلت و خواری ماں باپ کی اور گریہ و زاری اپنی چاہتی تھی۔ صبح تو کہاں، میں کہاں! یہ صحبتِ شب خواب ہو جائے گی۔ نَمودِ سحرِ مفارقت شامِ غُربت کا رنگ دکھائے گی۔ دامنِ سحر کی طرح گریبانِ صَبر چاک ہو گا، ہمارے سر پر آفت و خرابی آئے گی۔ انصاف کیجیے، کس سے کہوں گی: بے قراری ستاتی ہے؛ جان عالم کی جدائی سے روح بدن سے جدا ہوتی ہے، جان جاتی ہے۔ ہم صحبتیں طعنے دیں گی۔ انیسیں چھیڑ چھیڑ کر جان لیں گی۔ جب لونڈیوں پر خفا ہوں گی؛ بَڑبڑائیں گی، زبان پر یہ کلمہ لائیں گی: ملکہ عاشقی کا رنج و ملال یوں درپردہ ٹالتی ہیں۔ شہ زادہ چلا گیا، نہ رک سکا، اُس سے تو بس نہ چلا؛ ہم جو بے بس ہیں، بس غصے کی جھانجھ ہم پر نکالتی ہیں۔ باپ پر حال کھلا تو خَجالت ہو گی! ماں نے گر سنا، تو ندامت سے کیاحالت ہو گی! رسوائی کے خَوف سے دل کھول کر نہ رو سکوں گی۔ بدنامی کے ڈر سے جی نہ کھو سکوں گی۔ جب دلِ بے تاب ہجر سے گھبرائے گا، فرمایئے کون تسکین فرمائے گا؟ کیا کہہ کے سمجھائے گا؟ آپ اُدھر تشریف لے جائیں گے، ہم اِدھر غمِ فرقت سے گھٹ گھٹ کر مر جائیں گے۔ ہماری سَرنَوِشْت پر رونا روا ہے۔ ماجرا ہمارا عبرت اور حیرت افزا ہے۔ ہر چند ظِل سبحانی عاملِ بے بدل، ساحرِبے مثل ہیں؛ عُلوی، سِفلی سب کچھ پڑھالکھا؛ ہماری پیشانی اور لوحِ جبیٖں کی تحریر نہ دیکھی کہ کیا پیش آنی ہے! اور خط شکستہ سے ایسے نستعلیق نے کیا بُرا لکھا ہے! افسوس، صَد افسوس! مؤلف:

وہ بھی ہو گا کوئی، امید بر آئی جس کی

اپنے مطلب تو نہ اس چَرخِ کہن سے نکلے

یہ باتیں کر، دل پر ہاتھ دھر رُونے لگی۔ دامن و گریباں آنسوؤں سے بھگونے لگی۔ شہزادے کو ثابت کیا، یقین ہوا: ملکہ بہ شِدّت فرِیفتہ و شیدا ہے، بات سے حزن و ملال پیدا ہے۔ دل دُکھنے کے مزے سے زبان لذت پاچکی تھی، جان ہجر کے صدمے اٹھا چکی تھی۔ بے چین ہو کر بولا، زبان کو تسکین کی باتوں میں کھولا، کہا: آپ کا کدھر خیال ہے، بندہ فرماں بردار بہر حال ہے۔ جو کہو گی، بجا لاؤں گا۔ بارِ اطاعت سے سر نہ اٹھاؤں گا؛ مگر برائے چندے صبر، دل پر جبر ضرور ہے۔ اگر اس کی جستجو میں نہ جاؤں گا؛ تمھیں میری کیا امید ہو گی، ہم چشموں سے آنکھ کیوں کر ملاؤں گا؟

سبحان اللہ! وہ وقت دیکھا چاہیے کہ معشوق، عاشق کی تسکین کرے۔ اپنی اطاعت اس کے ذہن نشین کرے۔ خوش قسمتوں کو ایسے بھی مل جاتے ہیں کہ عاشق کے رنج کا غم کھاتے ہیں، دل داری کر کے سمجھاتے ہیں۔ اس کا لوگ رشک کرتے ہیں، آتش حسد سے جل مرتے ہیں۔

ملکہ یہ سن کر دل میں شاد، بندِ فکرِغم سے آزاد ہوئی۔ یہ بات امتحان کی ہے: جیسے جی پیار کرتا ہے وہ اگر جھوٹ بھی بولے، عاشق کو سچ کیا، بہ منزلہ حدیث و آیت ہو جاتا ہے؛ مگر یہ کہا، مصحفی:

عاشق سے بھی ہوتا ہے کہیں صبر و تحمل

وہ کام تو کہتا ہے جو آتا نہیں مجھ کو

لیکن خیر، ہم تو اسے بھی جھیل لیں، یہ کھیل بھی کھیل لیں؛ اگر ہماری یاد تمھیں فراموش نہ ہو، وحشت کا جوش نہ ہو۔ جان عالم نے قسمیں شدید کھائیں، اختلاط کی باتیں درمیان میں آئیں کہ اس میں سر مو فرق نہ ہو گا اور مژدۂ وصل سے مسرور کیا، خیالِ مفارقت ملکہ کے دل سے دور کیا، کہا: اب ہنسی خوشی کی باتیں کرو، یہ بکھیڑاجانے دو، جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے، رات تھوڑی، کہانی بڑی ہے۔ فلکِ سِفلَہ پرور جفا کیش ہے، عاشق و معشوق کا بد اندِیش ہے۔ استاد:

بہ شبِ وصل شکوہ ہا مَکنید

شب کوتاہ و قصہ بسیار است

مگر شبِ وصْل ازل سے کوتاہ ہے، خدا گواہ ہے۔ دو کلمے ہنسی کے خوشی سے نہ ہونے پائے، فلک نے رونے کے سامان دکھائے۔ یکایک مرغ سحر ’’بیدار باش‘‘ پکارا، زاہد ندائے ’’اللہ اکبر‘‘ سنا کے للکارا۔ گَجَر کی آواز بھی دونوں کے کان میں آئی۔ یَساوُلانِ سلطانِ خاور نے صبح کی دھوم مچائی۔ ملکہ پریشان ہو کر بولی، مؤلف:

وصل کی شب چونک اٹھے ہم، سن کے زاہد کی صدا

یاں دمِ تکبیر ہی، اللہ اکبر ہو گیا

وَلَہ:

زاہد بھی تیسرا ہے شب وصل میں حریف

مشہور گو جہان میں صبح و خروس ہے

جان عالم نے نماز صبح پڑھ کر، کمر بہ عزمِ سفر چست کی۔ ملکہ سہم کر، آبدیدہ ہو، یہ شعر پڑھنے لگی، جرأتؔ:

نہ آیا اور کچھ اس چرخ کو، آیا تو یہ آیا

گھٹانا وصل کی شب کا، بڑھانا روزِ ہجراں کا

جب شہ زادے نے چلنے کا قَصد کیا، ملکہ نے کہا: اگر حَرج مُتَصَور نہ ہو، میرے والد سے ملاقات کر لو۔ یہ اَمر فائدے سے خالی، لا اُبالی نہ ہو گا۔ جان عالم نے کہا: بہتر ہے۔ پھر وہی خَواص ہمراہ ہوئی۔ جب قریب پہنچا، دیکھا: مکان پاکیزہ، بُوریائے بے رِیا بچھا ہے، مُصلّے پر ایک مرد مہذب، بہ ذِکرِ حق مشغول، با دلِ ملول بیٹھا ہے۔ یہ رسمِ سلام بجا لایا۔ اُس نے دعائے خیر دے کر ہاتھ بڑھایا، چھاتی سے لگایا۔ قریب بِٹھا کے فرمایا: ماجرائے شبِ تیٖرۂ ملکہ، فقیر پر روشن ہے۔ ایسی بد قسمت دوسری، خَلق میں خَلق نہیں ہوئی۔ ہمارے کہنے سے انکار کیا؛ بڑے بول کا سر نیچا ہوا، تو تم سے کیا کیا دار و مَدار کیا۔ جو تم اِتنی تسکین نہ کرتے، اُس کا زندہ رہنا مُحال تھا، اِسی طرح کا دل پر صدمہ اور ملال تھا۔ اگر ایٖفائے وعدہ کرو گے، اللہ بھلا کرے گا؛ وگرنہ یہ رنج بُرا ہے، دیکھیے اُس کا حال کیا کرے گا۔ دِل داری جگر فِگاروں کی، عَیادت مَرضِ مَحبّت کے بیماروں کی جواں مردوں پر فرض ہے۔ یہ سمجھنا: ساحل را از خَس و خاشاک گُذار و گُل را از صحبتِ خار ننگ و عار نمی باشد۔

شہ زادے نے سر جھکا عرض کی: آپ کیوں محجوب فرماتے ہیں، مجبور ہوں۔ اِس عزم میں گھر چھوڑا۔ عزیزوں، یگانوں سے ترک کر شہر سے مُنہ موڑا۔ نہ جانے میں وہ جانیں گے: سخت کم ہمّت و بے جُرأت تھا، راہ میں آسائش ملی، بیٹھ رہا۔ خوف سے جا نہ سکا، جھوٹا تھا، ناحق عشق کا دم بھرا۔ پیر مرد نے فرمایا: مرحبا! جزاک اللہ! یہی شرط جواں مردی و ثابِت قدمی کی ہے۔ ہمیں بھی تمھارے اس عزم سے ایفائے وعدہ کی امید ہوئی۔ پھر ایک لوح عنایت کی اور کہا: جب کوئی مُہِم سخت رو بہ کار ہو؛ بہ طرزِ فال، اُس حال میں اِسے دیکھنا۔ جو نکلے، اُس پر عمل کرنا۔ اللہ تعالیٰ وہ مشکل سخت ایک آن میں آسان کرے گا۔ لو، بہ حِفظِ حافِظِ حقیقی سِپُردم۔ فَرْد:

بسفر رَفتَنَت مبارک باد

بسلامت روی و باز آئی

شہزادہ رخصت ہوا۔ لَوح لے کے ملکہ کے پاس آیا، اُس روشن ضمیر کا ارشاد سُنایا اور یہ زبان پر لایا، مُؤَلِّف:

کوچ کی اپنے اب تیاری ہے

تیرا حافظ جنابِ باری ہے

ملکۂ ناکام گردِشِ اَیّام دیکھ اور یہ کلمہ جاں کاہ سن کر، کلیجا تھام، سرِ شُوریدہ کو دھُن کر یہ شعر پڑھنے لگی، استاد:

میں مر گئی، سُن اُس کے سَر انجام سفر کا

آغاز ہی دیکھا نہ کچھ انجام سفر کا


کہتے ہیں وہ اب جاتا ہے، ایسی ہی دُعا کر

مسدود ہو رستہ دل ناکام، سفر کا


مت جان نکمّا مجھے اے جان، لیے چل

کرتی چلوں گی ساتھ ترے کام سفر کا


میں کشورِ ہستی ہی سے اب کوچ کروں گی

آگے نہ مرے لیجیو تو نام سفر کا


چلنے کی صلاح اس کے ٹھہرتی نہیں اب ساتھ

موقوف نوازشؔ ہوا آرام سفر کا

آخر جبراً قہراً رخصت کیا۔ کہا: خدا حافظ، امام ضامنِ ثامن کے حفظ میں سونپا۔ مصر؏:

ترا موسیٰ رضا ضامن، ترا اللہ والی ہے

جس طرح پیٹھ دکھاتے ہو، اسی صورت اللہ تمھارا منہ دکھائے، غمِ دوری ہمارا دور ہو جائے۔ جان عالم یہ سن کر روانہ ہوا۔ یہاں تپش دل کو بہانہ ہوا۔ دریائے سَرِشک چشم خوں پالا سے موج زن ہوا، غریق لُجّۂ مفارقت جان و تن ہوا۔ جلیسیں بولیں: ملکہ! کیوں جی کھوتی ہو! کس واسطے بلک بلک کر روتی ہو! مسافر کے پیچھے رونا زبوں از حد ہے۔ بی بی خیر ہے! یہ شگونِ بد ہے۔ وہ دن بھی اللہ دکھائے گا، جو وہ پردیسی صحیح سلامت خیر سے پھر آئے گا؛ تو ان کو وہ غم کی ماری یہ سمجھاتی، سوزؔ:

چشم کا کام، اشک باری ہے

چشمۂ فیض ہے کہ جاری ہے

مُولِف:

بے درد کوئی اتنا سمجھتا نہیں ہے ہے!

دل دکھے تو کس طرح سے فریاد نہ ہووے

ولہٗ:

مجھ کو رونے کو نہ تم منع کرو ہم نفسو!

غم دل کرتی ہوں میں دیدۂ تر سے خالی

اور جب آنسو کمی کرتے تو دل اور جگر سینے میں برہمی کرتے؛ اُس وقت گھبرا کے یہ کہتی، مولف:

مدد اے سوز جگر! تاکہ نہ ہووے خفت

نوک مژگاں ہوئی پھر لخت جگر سے خالی


پھر نہ منہ اس نے کیا میری طرف، ہے ظالم!

سخت تم بھی مرے نالو، ہو اثر سے خالی


نہ لگا اس کو، مری بات کو تو مان سرورؔ!

دل کا لگنا، نہیں اے یار، ضرر سے خالی

غرض کہ جوں جوں شہ زادے کی مفارقت بڑھتی تھی ملکہ صدمۂ ہجر سے ووں ووں گھٹتی تھی۔ بدر سا چہرہ کاہیدہ ہو کے ہلال ہوا۔ تپِ جدائی سے عجب حال ہوا۔ کبھی کہتی تھی: وائے ناکامی! اگر دل کا حال کہوں، شرم آتی ہے؛ جو چپ رہوں جان جاتی ہے۔ یہ سب کہتے ہوں گے: ملکہ کو غیرت نہیں آتی، راہ چلتوں سے بیٹھی ہوئی دل لگاتی ہے؛ آپ روتی ہے، ہمیں مفت رلاتی ہے۔ اس سمجھانے والے کو کہاں سے لاؤں، جسے دل کا حال سناؤں۔ زیست اسی میں ہے جو مر جاؤں۔ اب کون آنسو پونچھ رونے کو منع کرے گا! کون میرے دمِ گرم پر آہِ سرد بھرے گا! پیار سے سر چھاتی پر دھرے گا!

جب ملکہ کا یہ حالِ بتر، چپکے چپکے جی سے باتیں کرنا دیکھ کر، لوگ گھیرتے، دستِ شفقت سر وحشت انگیز پر پھیرتے اور پوچھتے کہ اے جی کی دشمن! ہمیں تو بتا، کہ دل کا حال کیا ہے؟ تو وہ کہتی: اور تو کچھ جانتی نہیں، پر یہ نقشہ ہے: ہاتھ پاؤں سنسناتے ہیں، خود بہ خود غش چلے آتے ہیں۔ دم سینے میں بند ہے، گھبراتا ہے، مکان کاٹے کھاتا ہے۔ باغ ویران، گل و بوٹا خار معلوم ہوتا ہے۔ گھر زنداں، بات کرنا بے کار معلوم ہوتا ہے۔ جان بے قرار ہے، بند بند ٹوٹتا ہے۔ دامن صبر دست استقلال سے چھوٹتا ہے۔ جنگل پسند ہے۔ ویرانے کا جی خواہشمند ہے۔ دشت کا سناٹا بھاتا ہے، بلبل کا نالہ دل دکھاتا ہے۔ خدا جانے کس کی جستجو ہے، دل کو مرغوب قمری کی کو کو ہے۔ تنہائی خوش آتی ہے، آدمیوں کی صورت سے طبیعت نفرت کھاتی ہے۔ سینہ جلتا ہے، دل کو کوئی مَسوس کر مَلتا ہے۔ آنکھ ظاہر میں بند ہوئی جاتی ہے، مگر نیند مطلق نہیں آتی ہے۔ ہاتھ چاہتے ہیں سر دست چاک گریباں دیکھیں۔ پاؤں چل نکلے ہیں کہ بیاباں دیکھیں۔ نل دَمَن کی مثنوی سے ربط ہے۔ لیلی و مجنوں کا قصہ پڑھتی ہوں، یہ کیا خبط ہے۔ دل کی تمنا ہے کہ بے قراری کر۔ آنکھیں امڈی ہیں کہ اشک باری کر۔ جہان کی بات سے کان پریشان ہوتے ہیں، مگر جان عالم کا ذکر دل لگا کر سنتی ہوں۔ جو کوئی سمجھاتا ہے؛ رونا چلا آتا ہے، سر دھنتی ہوں۔ ناکامی، مجھ خستہ و پریشاں کا کام ہے۔ آہ، مجھ بے سروساماں کا تکیہ کلام ہے۔ منہ کی رونق جاتی رہی، زردی چھا گئی، بہار حسن پر خزاں آ گئی۔ ہر دم لب پر آہ سرد ہے، ایک دل ہے اور ہزار طرح کا درد ہے۔ جان جانے کاوسواس نہیں، بزرگوں کا لحاظ و پاس نہیں۔ زیور طوق و سلاسل ہے، زیب و زینت سے بدمزگی حاصل ہے۔ دل و جگر میں گھاؤ ہے۔ بگاڑنا، بناؤ ہے۔ بستر نرم خارخار ہے؛ ارے لوگو، یہ کیا آزار ہے! سب سے آنکھ چراتی ہوں، ہم صحبتوں سے شرماتی ہوں۔ اب صدمے اٹھانے کا یارا نہیں۔ بے موت اس بکھیڑے سے چھٹکارا نہیں۔ عجیب حال ہے، اکثر یہ خیال ہے، مولف:

افسوس! یہ حال ایک عالم دیکھے

ایسا نہ ہوا کہ جان عالم دیکھے

اگر اسی کا عشق و عاشقی نام ہے تو میں درگزری، میرا سلام ہے۔ جو لوگ عشق کرتے تھے، کیوں کر جیتے تھے؟ بتاؤ تو کیا کھاتے تھے، کیا پیتے تھے؟ دو دن سے کچھ نہیں کھایا، مگر پیٹ بھرا ہے۔ کھڑی ہوں، جی بیٹھا جاتا ہے۔ پہلے مجھے نہ منع کیا، ہے ہے! میری جان کے دشمنو، یہ کیا کیا! اللہ کی مرضی، جیسا کیا ویسا بھگتیں گے، کسی کا کیا بگڑا۔ میری قسمت کا لکھا، جو کیا، وہ اچھا کیا۔

یہ سن کے ایک کھیلی کھائی، عشق کے نیرنگ دیکھی، وصل کے ہجر میں صدمے اٹھائی، قریب آئی، کہا: قربان جاؤں، واری، ابھی سلامتی سے نو گرفتاری ہے جو اتنی آہ و زاری اور بے قراری ہے۔ سہتے سہتے عادت ہو جائے گئی تو تسکین آئے گی۔ ان باتوں کے سننے سے چوٹ سی لگی۔ ملکہ کا دل جو بھر آیا، بے اختیار خو نابہ دل، لخت جگر چشم تر سے متصل بہانے لگی۔ دیدۂ دیدار طلب سے سمندر کی لہر لہرانے لگی۔ نظم میں دل کا حال سنانے لگی، مولف:

حالت ہے اس کی پارے کی، برق و شرار کی

کیا کیا تڑپ سناؤں دل بے قرار کی


پھوٹے تپش سے دل کی یہ سب آبلے میرے

منّت کشی نہ کرنی پڑی نوک خار کی


دل اپنا قبر میں بھی جلے گا اسی طرح

حاجت رہے گی ہم کو نہ شمع مزار کی


وعدے کی شب کو، دیدۂ اختر جھپک گئے

دیتے مثل ہیں لوگ مرے انتظار کی


لے جائیو ادھر سے جنازہ مرا سرورؔ

حسرت بھری ہے دل میں مرے کوئے یار کی