فسانۂ عبرت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانۂ عبرت
by احمق پھپھوندوی

تعجب میں ہوں دیکھ کر رنگ عالم
الٰہی یہ کیا آ گیا ہے زمانا
نہ پہلی سی وہ مہر و الفت کی باتیں
نہ اگلا سا چاہت کا وہ کارخانہ
جدھر دیکھیے بس تعصب، جہالت
جہاں جائیے صرف لڑنا لڑانا
جو تعلیم دیتا ہے جنگ و جدل کی
وہ ہے انتہائی خرد مند و دانا
جو تلقین کرتا ہے صلح و صفا کی
وہ ہے تیر زجر و جفا کا نشانا
نہ معلوم کب یہ جہالت مٹے گی
کب آئے گا عیش و خوشی کا زمانا
ملیں گے گلے کب بہم ملنے والے
بجائے گا اقبال کب شادیانہ
بس اب چھوڑ دو یہ ضدیں ورنہ یارو
جہاں میں ہے مشکل تمہارا ٹھکانا
رہوگے یوں ہی پایمال جفا تم
رہے گا یہی روز رونا رلانا
نتیجہ یہ ہوگا کہ بن جاؤ گے تم
فنا ہو کے اک عبرتوں کا فسانہ
یہ سب برکتیں اہل انگلینڈ کی ہیں
کرو جلد انہیں اب یہاں سے روانا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse