فسانہء مبتلا/54

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

ستائیسواں باب: خاتمہ

ایک حسن پرستی کے پیچھے دنیا میں کیا کیا سختیاں اٹھائیں کہ خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔ اپنا یا بیگانہ مرنا تو سبھی کا قابل افسوس ہے مگر نہیں تو مبتلا کا کیونکہ اس کا جینا قابلِ افسوس تھا اور مرنا قابلِ خوشی۔ کیونکہ مر کر وہ دنیا کی مصیبتوں سے تو چھوٹ گیا مصیبتیں تو اس کے دم کے ساتھ تھیں۔

نہ مرتا تو اور مصیبت بھرتا۔ پھر بھی ہم اس کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ دنیاوی ایذائیں اس کے گناہوں کا کفارہ ہوں اور بیچارہ مصیبت کا مارا حسن صورت کا بہت فریفتہ تھا لہٰذا خدا اس کو جنت میں بہت سی حوریں دے بشرطیکہ غیرت بیگم اور ہریالی کی طرح آپس میں نہ لڑیں۔ عبرت کا مقام ہے۔

ایک چھوڑ دو دوبیبیاں موجود، بیٹا موجود بیٹی موجود۔ بیبیوں کے نوکر چاکر موجود اور مرتے وقت منہ میں پانی ٹپکانے کو مبتلا کے پاس کوئی نہیں۔

کہیں پہر رات گئے وفادار محنت مزدوری سے فارغ ہو کر آیا اور اس نے پکارا تو میاں کو مرا ہوا پایا۔ چیخ اٹھا، سارے محلے کو خبر ہوئی اور محلے والوں کے ساتھ محل کے لوگوں نے ہریالی کو دیکھا تو وہ اور اس کی ماما اور اسباب سب ندارد۔ گھر میں جھاڑو دی ہوئی پڑی ہے۔

نہیں معلوم ایسا کون کالا چور اس کو بھگا کر لے گیا کہ پھر اس کا پتہ نہ لگا۔ غیرت بیگم یا تو اس قدر میاں سے اکڑی رہتی تھی یا میاں کا مرنا سنتے ہی ایسا روئی، اتنا پیٹی کہ بس خود میاں کی عاشق زار ہو گی وہ بھی اس سے زیادہ کیا روئے پیٹے گی۔

اب اس کو معلوم ہوا کہ میاں اس کا ظلم سہنے کے لیے سدا کو بیٹھے رہنے والا نہ تھا۔ وہ میاں کے مرنے پر اتنا نہیں روتی تھی جتنا اپنے ظلموں پر جن کی تلافی اب کچھ اس کے اختیار میں نہ تھی۔ روتے روتے دونوں آنکھوں میں ناسور پڑ گئے تھے۔ اور ہتھنی جیسا ڈیل ایسا سوکھا تھا کہ جیسے کانٹا۔ مبتلا کی چھ ماہی بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ غیرت بیگم اسی رنج میں تمام ہوئی۔ مرتے مرتے وصیت کی کہ مجھ کو بتول کے باپ کی پائینتی دفن کرنا تاکہ اگر جیتے جی میں ان کے پاؤں نہ پڑ سکی تو خیر قبر میں ان کے پاؤں ہوں اور میرا سر۔