فسانہء مبتلا/52

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

دو بیویوں کے ساتھ خانہ داری اور مبتلا

مبتلا اور ہریالی کی یہ لڑائی تو خیر ایک اتفاقی بات تھی مگر دیکھنا چاہیے ان میں باہمی ارتباط کس درجے کا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے سمجھنے میں غلطی کی۔ ہریالی نے سمجھا تھا کہ یہ آدمی ہے حسن پرست بیوی اس کو بھاتی نہیں اور مجھ پر ہو رہا ہے لٹو۔ میں گئی نہیں اور اس کی بیوی سے تڑا چھڑا اپنے کھونٹے سے باندھا نہیں۔

یہاں آکر دیکھا تو بیوی کو میاں کا خصم پایا کہ وہ اس کو اس طرح لپٹی ہے جیسے مکھی کو شہد۔ یہ بہتیری کوشش کرتا ہے کہ اس سے چھوٹ جاؤں مگر اور لتھڑتا چلا جاتا ہے۔ چاہیے تھا کہ مجبور سمجھ کر معذور رکھے۔ خودغرضی جبر و اختیار میں فرق کرنے نہیں دیتی تھی وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا اور یہ جانتی تھی کہ اپنے ہیٹے پن سے خود نہیں کرتا۔

وہ واری اور قربان تھی جب تک توقع میں جان تھی۔

ناامید ی کا پیدا ہونا تھا کہ صاف ہتھے سے اکھڑ گئی۔ مبتلا تو اول دن سے حسن صورت کے پیچھے ایسا فریفتہ تھا کہ خوبصورتی کے آگے حسب نسب سلیقہ ہنر عقل نیکی دینداری کسی چیز کو دیکھتا ہی نہ تھا۔ بیوی سے تھی اس کو نفرت چوٹوں کی طرح۔ دوچار بار رات کو ہریالی کے یہاں گیا آنکھوں میں سما گئی۔ نہ انجام سوچا نہ عاقبت کار پر نظر کی، گھر میں لابٹھایا، مبتلا کے دل کو جو اچھی طرح سے ٹٹول کر دیکھا تو گھر میں آگے پیچھے ہریالی کی طرف اس کا اگلا سا رخ نہ تھا۔

اول تو اس نے ہریالی کے جانچنے اور آنکنے ہی میں غلطی کی تھی۔

اس میں شک نہیں کہ ہریالی خوبصورت تھی مگر نہ اس درجہ کی کہ مبتلا جیسا حسین آدمی اس پر مفتون ہو۔ یونیورسٹی کی ڈگریاں اگر خوبصورتوں کو ملتی ہوتیں تو ہریالی ہماری نظر میں اس معیار سے بس ایف اے کے قابل تھی مگر مبتلا تو اس کو نکاح سے پہلے ایم۔ اے کے درجے میں سمجھتا تھا۔ دوسری ایک وجہ یہ ہوئی کہ ہریالی کو ویسا بناؤ سنگار نہ تو اب میسر تھا اور نہ اس کا موقع تھا اور سب سے بڑا سبب تو ہمارے سمجھنے میں یہ تھا کہ کیسی ہی کوئی نعمت کیوں نہ ہو۔

اس کی قدر طلب تک رہتی ہے۔ حاصل ہوئی اور اس کی منزلت گھٹی۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ انسان کو اس کا احساس بھی باقی نہیں رہتا کہ یہ نعمت کچھ نعمت بھی ہے یا نہیں۔ اگر غیرت بیگم کو ذرا بھی عقل ہو کہ خدمت اور اطاعت سے میاں کو اپنا کرنا چاہیے تو ہریالی کی اتنی بھی قدر نہ ہو۔ یہ اپنی صورت کو آئینہ لیے بیٹھی چاٹا ہی کرے اور اندر باہر غیرت بیگم ہی غیرت بیگم رہے، مگر وہ چال بری چلی۔

اس نے چاہا نکتوڑوں سے دباؤ سے بھائیوں کی حمایت سے مبتلا کے دل میں جگہ کر لے، نہ خوبصورتی کے برتے پر بلکہ سلیقے اور رضاجوئی کے بل پر۔ غیرت بیگم کے جھگڑے مبتلا کو چین تو لینے دیتے ہی نہ تھے، وہ ہریالی کی خوشی کیا مناتا۔ دونوں میں میل جول رہا مگر عاشقی معشوقی کا سا نہیں بلکہ جیسا کہ عام طور پر میاں بیویوں میں ہوا کرتا ہے۔