فسانہء مبتلا/48

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

ناظر: خیر اب آپ فرماتے ہیں اور آپ کا قدم درمیان میں ہے تو میں اس مقدمہ میں ہاتھ ڈالتا ہوں مگر مبتلا بھائی نے آج اس رنڈی کے سامنے (آپ برا مانیں یا بھلا مانیں میں تو اس کو ساری عمر بھاوج کہنے والا نہیں) جیسا ذلیل کیا ہے، میں اس رنج کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ جب آپا نے میرے بیٹھے پر افیون کھائی تو میں گھبراکر اس غرض سے ان کے پاس دوڑا ہوا گیا تھا کہ ہم دونوں ہم صلاح ہو کر تدبیر کریں۔

انہوں نے مجھ کو دروازے میں سے دیکھ کر اس طرح دھتکارا کہ کوئی کتے کو بھی نہیں دھتکارتا، مجھ کو رہ رہ کر غصہ آتا ہے کہ انہوں نے تو شرم اور حیا سب کو بالائے طاق رکھ دیا یا آپ کے سامنے میرا منہ کھلواتے ہیں۔ کل کی بات ہے کہ یہی نالائق جو آج لمبا چوڑا پردہ لگا کر بیٹھی ہے۔ بے اختیار جی چاہتا ہے کہ مارے جوتیوں کے بدذات کے سر پر ایک بال باقی نہ رکھوں، ٹکے ٹکے پر ماری ماری پڑی پھرتی تھی اور کوئی اس پر تھوکتا بھی نہ تھا۔

ان ہی سے پوچھئے کہ کئی بار میرے یہاں اس کا مجرا ہوا۔ جب آتی تھی ڈیوڑھی میں فراشی سلام۔ یا اب اس کے یہ بھاگ لگے ہیں کہ ہمارے سامنے ہونے سے اس کی بے پردگی ہوتی ہے۔

عزت بنانے سے نہیں بنتی بلکہ خدا داد چیز ہے۔ آج یہ پردہ نشین بنی۔ کل کو سیدانی بن کر چاہے گی کہ ہماری ماؤں بہنوں کے ساتھ بیوی کی صحنک کھائے۔ پرسوں اس کے بال بچے ہوں گے اور کہے گی کہ سیدوں میں رشتہ ناتہ کرتی ہوں تو کوئی بھلا مانس اس کو جائز رکھے گا۔

یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں سب ہماری آپا کا صبر پڑ رہا ہے۔ اور بھی کیا ہے۔ یہ مظلمہ تو مبتلا بھائی کو ایسے ناچ نچائے گا کہ ہریالی کو ساری عمر ایسا ناچ ناچنے کا اتفاق نہ ہوا ہو گا۔ ناظر تو باتوں باتوں میں گرم ہوتا جاتا تھا اور مبتلا کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں کہ اگر اب کے پھر کہیں یہ جن لپٹ پڑا تو ہڈی پسلی ایک کر کے رکھ دے گا۔ حاضر کے بیٹھنے کی اگر ڈھارس نہ ہو تو قریب تھا کہ مبتلا کی گھگھی بندھ جائے۔

بارے حاضر نے کہا بھائی ناظر! یہ تو تم پھر بگاڑ کی سی باتیں کرتے ہو۔ یہ سوچ ہے کہ مبتلا بھائی کی نادانی نے سارے گھر کو تہ و بالا کر دیا مگر یہ بھی تو نہیں ہو سکتا کہ ہم غیروں کی طرح دور کھڑے ہوئے تماشا دیکھیں۔

ناظر: یہ تو میں نے وہ حقیقت بیان کی جو میرے دل میں تھی، رہ گیا مقدمہ اس سے آپ اطمینان رکھیے، مبتلا بھائی کو روپیہ تو بہت خرچ کرنا پڑے گا۔

کوئی پانچ چھ ہزار۔ مگر خدا نے چاہا تو ان پر اور ان کے طفیل میں ہریالی پر کوئی گزند نہیں آنے پائے گا۔ اس وقت تک مبتلا کو مقدمہ کی واقعی روداد اور کوتوالی کی تحقیقات سے اپنی اور ہریالی دونوں کی طرف سے پورا اطمینان تھا اور دونوں اپنی جگہ خوش تھی چاہ کن راچاہ درپیش۔ سنکھیا دی اسی غرض سے کہ ہم دونوں کھائیں اور مر کر رہ جائیں۔ خدا کی قدرت ہم دونوں کے منہ پر رکھنے کی نوبت بھی نہیں آئی اور اوپر ہی اوپر ماما کے بیٹے نے جا کر سرکار میں خبر پہنچائی۔

اب لینے کے دینے پڑے۔ غیرت بیگم کو پھانسی ہو تو پھانسی، عمر قید میں تو شک ہی نہیں چلو سستے چھوٹے اور روز کاٹنٹا مٹا۔ ناظر کے منہ سے یہ کلام سن کر کہ پانچ چھ ہزار روپیہ خرچ کرو تو تم پر گزند نہیں آنے پائے گا۔ مبتلا توحیران ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور بے اختیار بول اٹھا: کیوں صاحب۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے مجھی کو زہر دیا جائے اور میں ہی گزند سے بچنے کے لیے پانچ چھ ہزار روپیہ بھی خرچ کروں۔

انگریزی کی عمل داری میں یہی انصاف ہے۔

ناظر: ہوش کی بنواؤ۔ تماش بینی اور شے ہے اور مقدمہ کی باریکی کو پہنچنا کچھ اور چیز ہے۔ تم کو اتنا تو معلوم ہی نہیں کہ معاملہ کس کو کہتے اور مقدمہ کس جانور کا نام ہے۔ میں تو زبان دے چکا ہوں اور بدعہدی کسی شریف آدمی کام نہیں۔ اس لیے چند تہہ کی باتیں تم کو سمجھاتا ہوں کوتوالی کی تحقیقات کو تو عدالت میں کوئی پوچھتا تک نہیں روداد وہی معتبر ہے جو عدالت کی مثل میں ہو کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کوتوالی کے لوگ زبانی پوچھ گچھ کے سوا کسی کا اظہار تک قلم بند کر نہیں سکتے۔

اصل بات یہ ہے کہ پہلے کوتوالی اور فوجداری ایک تھی جب یہ لوگ لگے اظہار کارگزاری کے لیے ہر وارادت بے سراغ کے مجرم بنانے اور اصل مجرموں سے سازش کر کے بیگناہوں کو ناحق پھنسانے تو سرکار نے کوتوالی اور فوجداری کو الگ کر دیا۔ اب تو کوتوالی والوں کا اتنا ہی اختیار ہے کہ جس کو اپنے نزدیک مجرم سمجھیں حاکم عدالت کے پاس چالان کر دیں۔ حاکم عدالت مدعی اور مدعاعلیہ گواہوں کے اظہار قلم بند کرتا ہے اور اپنے یہاں کی روداد پر سزا یا رہا کرتا ہے۔

کوتوالی والے اناپ شناپ جس کو پکڑ کر پاتے ہیں چالان کر دیتے ہیں۔ عدالت میں گئے اور رہا ہوئے اور ہمارے صاحب مجسٹریٹ کوتوالی سے اس قدر بدظن ہیں کہ مجسٹریٹی کا اجلاس کرتے ہوئے پورا برس نہیں گزرا کہ اتنے ہی دنوں میں کوتوالی والوں سے جیل خانہ بھر دیا۔ غرض کوتوال اور ان کی تحقیقات کی تو کچھ بھی حقیقت نہیں۔ اب رہ گئی مقدمے کی روداد سو اس کا یہ حال ہے کہ سنکھیا حقیقت میں پکڑی گئی۔

ہریالی کے یہاں پس مدعاعلیہ اول ہوئی ہریالی اور پہلے اسی پر اشتباہ کیا جائے گا کہ اسی نے فیرینی میں ڈالی یا ڈلوائی۔

مبتلا: بھلا وہ کم بخت بدنصیب کس کو سنکھیا دینے اٹھی تھی اپنے تئیں یا مجھ کو یا اپنی ماما کو جو سال ہا سال سے نوکر ہے اور کبھی اس کو پھٹے منہ تک نہیں کہا یا اپنے پالے ہوئے جانوروں کو۔ ناظر یہ سن کر بولا کہ تمہاری ناپختہ رائے تو بات الگ ہے لیکن دوسرے احتمالات میں تو کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔

ہو سکتا ہے کہ اس نے زہر دینا چاہا ہو۔ یہ عجب نہیں بازاری خلقت کا بھروسہ کیا۔ خدا جانے اس نے کیا سمجھ کر تم سے نکاح پڑھایا اور اب جو اس کی مراد بر نہ آئی تو اس نے اپنا پنڈ چھڑانے کے لیے یہ تدبیر کی۔ اگر وہ اپنی حالت سابقہ پر عود کرنے کی آرزو مند ہو تو اس سے کچھ دور نہیں۔

ماما جو ہے وہ تم خود کہتے ہو کہ اس کے پاس مدت سے ہے تو ضرور اس کے پچھلے حالات سے بخوبی واقف ہو گی اور عداوت کے لیے اتنی بات کافی ہے اور سنکھیا کے لیے تمہاری اور ہریالی ماما کی کیا تخصیص ہے۔

معصوم سارے سارے دن ہریالی کے یہاں رہتا ہے وہ یقینا اس کی جان کی دشمن ہے۔ ان کے علاوہ احتمال اور ہے اور وہ سب میں زیادہ قرین قیاس ہے کہ آپا کے پھنسانے کے لیے یہ سارا منصوبہ سوچا گیا ہے۔ ورنہ سبب کیا کہ جانوروں تک فیرینی کھلائے اور آپ منہ تک نہ لے جائے اور بدذات نے کیا چالاکی اور بے رحمی کی ہے کہ بے زبان جانوروں کو تو اتنی فیرینی ٹھسائی کہ ایک نہ بچا۔ لہو لگا شہیدوں میں داخل کیا۔

مبتلا: گھوسن کی گواہی پر کچھ لحاظ نہ ہوگا؟