فسانہء مبتلا/42

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

بائیسواں باب: دو سوکنوں کی لڑائی کے گھر اور اہلخانہ پہ اثرات

آدمی الگ گھر کرتا ہے تو پلنگ پیڑھی، تخت چوکی، چولہا چکی، برتن بھانڈا، سبھی چیزیں اس کو درکار ہوتی ہیں۔ غیرت بیگم کے یہاں اسباب کے اٹم لگے ہوتے تھے مگر کسی کی مجال تھی کہ تنکا تو اٹھا کر ادھر سے اُدھر لے جائے۔ ہریالی کو ابتدا میں تو سخت تکلیف ہوئی۔

مگر سلیقہ بھی عجیب چیز ہے۔ دو ہی برس میں ہریالی نے رفتہ رفتہ اپنا گھر ایسا درست کر لیا کہ غیرت بیگم کے کئی پشتوں کے جمے ہوئے گھر میں ایک چیز وقت پر نہیں بھی ملتی تھی، مگر ہریالی کے یہاں آتا تو کون تھا لیکن اگر دس مہمان بھی آجاتے تو آسائش کا تمام سامان موجود پاتے۔ ایک مرتبہ پرانا سرکہ درکار تھا۔

تعجب کی بات ہے کہ سارے محلے میں کسی کے یہاں سے نہ ملا۔

ہریالی نے، جس کی طرف کسی کا ذہن بھی منتقل نہیں ہوتا تھا، سنتے کے ساتھ ہی پیالہ بھر کر بھجوا دیا۔ جس طرح سید حاضر نے ٹھہرا دیا تھا۔ مبتلا ایک ایک دن باری باری سے دونوں گھروں میں رہتا تھا۔ بڑے میں تو کوئی اس سے بولتا چالتا نہیں تھا۔ کسی دن اگر معصوم کو پکڑ پایا تو گھڑی دو گھڑی اس کے ساتھ جی بہلایا ورنہ منہ لپیٹا سو رہا۔ خاطرداری سمجھو مدارات سمجھو آؤ بھگت سمجھو۔

جو کچھ تھی سو چھوٹے گھر میں تھی۔ مگر غیرت بیگم اس کو وہاں بھی چین سے نہیں رہنے دیتی تھی وہ اپنے گھر میں تو مبتلا سے ایسی بے رخی کرتی کہ گویا اس کو میاں کی ذرا بھی پرواہ نہیں اور چھوٹے گھر کی باری آئی اور صبح سے اس نے مبتلا کی نگرانی شروع کی۔ مردانے میں کئی دیر بیٹھے گھر میں کس وقت آئے کہاں سوئے۔ کیا کھایا اور کتنا کھایا۔ ہریالی کے ساتھ کیا باتیں کیں۔

گھر کے نوکروں پر ایک نیا کام یہ اور پڑا کہ سارے سارے دن اور پہر پہر رات گئے تک ایک ڈیوڑھی میں کھڑی جھانک رہی ہے تو ایک دروازے میں کان لگائے سن رہی ہے اور ایک ہے کہ جس طرح جولاہا تانا بانا تنتا پھرتا ہے۔ اوپر تلے بیسیوں پھیرے زنانے سے مردانے میں اور مردانے سے زنانے میں۔ باوجودیکہ غیرت بیگم نے ایک مبتلا کے پیچھے اتنے جاسوس لگا رکھے تھے اس پر بھی اس کا جی نہیں مانتا تھا۔

ایک موکھا تو اس نے پاخانے کی دیوار میں کیا کہ چھوٹے گھر کے سہ درے کی ذرا ذرا بات وہاں سے سنائی دیتی تھی۔ رہ گیا ایک ضلع صحن سایہ بان اور سایہ بان کے اندر کا دالان سوغیرت بیگم کی طرف ایک بالاخانہ تھا اور اس میں تھی ایک کھڑکی کھول دو تو صحن سے لے کر اندر والے دالان تک سب کچھ دکھائی دیتا تھا۔

یا تو غیرت بیگم نے جس دن کی بیاہی آئی کبھی بالاخانے پر پاؤں نہیں رکھا تھا یا اب سوکن کی ضد پر جس دن چھوٹے گھر کی باری ہوتی صبح سویرے سے کوٹھے پر چڑھی اگلی صبح کو اترتی۔

غرض ساری گرمی غیرت بیگم نے میاں کو ہریالی سے بات نہیں کرنے دی جاڑا آیا اور پردے چھوڑ کر دالان میں سونے لگے تب تھک کر بیٹھی شروع میں تو نوکروں کو آنے جانے کو ایسی سخت ممانعت تھی کہ ایک مرتبہ ایک لونڈی نے باہر ڈیوڑھی میں سے آگ پکڑا دی تھی۔ غیرت بیگم کو خبر ہو گئی تو اس کے ہاتھ پر جلتا ہوا انگارا رکھ دیا لیکن پھر سوچی کہ نوکروں سے خبریں خوب ملتی ہیں۔

ان کا روکنا ٹھیک نہیں۔ بندی کھول دی مگر اس سے خرابی کیا پیدا ہوئی کہ ماما لونڈی جو کوئی چھوٹے گھر سے ہو کر آتی۔ غیرت بیگم اس سے حال پوچھتی، اگر وہ اس کی خواہش کے مطابق کچھ بیان نہ کرتی تو اس پر خفا ہوتی کہ تو جھوٹی ہے یا چھپاتی ہے یا تو ادھر ملی ہوئی ہے۔ ناچار اس کی بدگمانیوں سے بچنے کے لیے نوکروں نے اپنے جی سے باتیں بنانا شروع کیں۔

حقیقت میں تو وہ باتیں ہوتی تھیں بے اصل مگر ایسی ہر ایک بات کا ہفتوں جھگڑا لگا رہتا تھا، آپ رنجیدہ اور مبتلا پر اپنی بدنفسی اور حماقت ثابت کرتی۔ ایک آتی اور دل سے جوڑ کر کہتی بیوی آج تو تمہاری سوکن کے عجب ٹھاٹھ ہیں۔ ایسی بن سنور کر بیٹھی ہے جیسے کوئی نئی دلہن۔ سر میں چنبیلی کا تیل پڑا ہو۔ مگر کوئی چار روپے سیر کا۔ سارا گھر پڑا مہک رہا ہے۔

چوٹی گندھی ہے۔ یہ بڑے بڑے موتیا کے پھولوں کا سارا گہنا البتہ ڈیڑھ دو روپے سے کیا کم کا ہو گا۔ ملاگیری چنا ہوا مہین رینگ کا دوپٹہ۔ اچھا خاصہ چارا نگل کا چوڑا سنہری ٹھیکا ٹنکا ہوا سفید ترین تیل بیل کا پاجامہ پائنچوں میں بیل دار کنارہ کنارے پر کیکڑی کیکڑی پر بانکڑی پھر بانکڑی کی چیک، غیرت بیگم یہ سن کر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہتی، ہاں صاحب جن کے بھاگ ان کے سہاگ دوسری یہ بات بنائی کہ وہ آپ تو صحن میں کرسی بچھائے بیٹھی ہیں، میاں سامنے کھڑے گنا چھیل رہے ہیں۔

گنڈیریاں بنا بنا کر آپ بھی کھاتے جاتے اور اپنے ہاتھ سے ان کے منہ میں بھی دیتے جاتے ہیں، میں تو یہ دیکھ کر الٹے پاؤں پلٹ آئی، ماما باہر بیٹھی کھانا پکا رہی ہے۔ غیرت بیگم لعنت خدا کی پھٹے منہ حیا اور شرم تو مطلق چھو نہیں گئی۔ اشارے سے بیوی کو بلاتی کہ ذرا آپ بھی تو موکھے میں دیکھئے آج میاں کا جی کیسا ہے۔ دولائی اوڑھے پڑے ہیں اور کنچنی پاس بیٹھی پاؤں دبا رہی ہے۔

غیرت بیگم اری کم بخت تجھ کو دھوکہ ہوا ہو گا۔ کنچنی لیٹی ہو گی اور میاں پاؤں دبا رہے ہوں گے۔

اس طرح کی سینکڑوں باتیں صبح سے شام تک اپنے ہی گھر کے نوکر غیرت بیگم سے آکر کہتے اور سب میں زیادہ منہ لگی وہ تھی جو اس طرح کی باتیں خوب تصنیف کرسکتی تھی۔ اتنی تو کسی کی مجال نہ تھی کہ غیرت بیگم کے منہ پر ہریالی کو ہریالی کہہ دے اور اگر کسی کی زبان سے بھولے سے بھی چھوٹی بی بی نکل جاتا تو بیشک غیرت بیگم تڑ سے اس کے منہ پر جوتی کھینچ مارتی۔

نام سے تو اتنی نفرت اور پھر رات دن اس کی تسبیح۔ آخر سوچ کر غیرت بیگم نے سوکن کو بے غیرت کا خطاب دیا اور جتنے لوگ غیرت بیگم کے طرف دار تھے یہاں تک کہ ادنیٰ ادنیٰ نوکر اس کی حمایت پا کر سب بے تامل ہریالی کو پکار پکار کر بے غیرت کہتے تھے اور دیوار کے پیچھے ہریالی اپنے کانوں سے سنتی تھی بلکہ اس نے سینکڑوں بار مبتلا کو سنوا دیا تھا۔ مبتلا کو نوکروں کے منہ سے یہ لفظ سن کر سخت رنج ہوتا تھا۔

کیونکہ ہریالی جو کچھ تھی سو تھی۔ مگر راجہ کے گھر آتی اور رانی کہلاتی، اب تو اس کی منکوحہ تھی نوکروں کو اور گھر کی لونڈیوں کو کیا زیبا تھا کہ اس کی منکوحہ کو یوں منہ بھر بھر گالیاں دیں۔ مگر وہ کیا کر سکتا تھا۔ ہریالی کو سمجھا دیتا کہ کچھ تم سے پُرخاش نہیں، مجھ کو نوکروں کے ہاتھ سے ذلیل کرانا مقصود ہے، خدا کی شان میرے نوکر میرے لونڈی غلام اور ایسے گستاخ ایسے بے ادب، کیا کروں کچھ کرتے بن نہیں پڑتا۔

میں صبر کرتا ہوں تم بھی صبر کرو۔ غیرت بیگم کو سوکن کی طرف سے ہر طرح کی بدگمانی تو تھی۔ بتول کو تو اس طرف کوئی لے جانے نہیں پاتا تھا۔ مگر معصوم اپنے پاؤں دوڑا دوڑا پھرتا تھا۔ اس کو کون روکے، غیرت بیگم بہتیرا ڈراتی دھمکاتی گھر کتی مگر یہ کس کی سنتا تھا۔ آنکھ بچی اور گھر میں۔ غیرت بیگم سے اور مبتلا سے تو روز بروز کی عداوت بڑھتی چلی جاتی تھی، مبتلا کے جلانے اور چھیڑنے اور ایذا دینے کو جہاں غیرت بیگم اور بہتیری باتیں کرتی تھی ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ بچوں کے ساتھ اس کی اگلی سی مدارات باقی نہیں رہی تھی۔

اب تو وہ بات بات پر معصوم کو مار بیٹھتی اور کوسنا تو تکیہ کلام ہو گیا تھا۔ بچوں کا تو قاعدہ ہے کہ وحشی جانوروں کی طرح ہلانے اور پرچانے سے رام ہوتا ہے معصوم کا یہ حال ہو گیا تھا کہ غیرت بیگم کی شکل سے دور بھاگتا اور اس کی پرچھائیں سے ڈرتا چھوٹے گھر میں اس کی ایسی خاطرداری ہوتی تھی کہ اس نے اندر پاؤں رکھا اور ہریالی نے دوڑ کر اس کو گود میں لیا۔

ہاتھ منہ دھلایا۔ بالوں میں تیل ڈالا۔ کنگھی کی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ میوہ مٹھائی اس کے لیے لگا رکھتی تھی جو کچھ موجود ہوا کھلایا۔ کھنڈی تکمہ اگر ٹوٹ گیا ہے۔ ٹانک دیا۔ کبھی کبھار کوئی کھلونا منگوا دیا۔ آپ پان کھاتی ہوتی تو اس کو بھی ٹکڑا بنا دیا۔ یا آئینہ ہاتھ میں دے دیا کہ دیکھوں تو کیا منہ لال لال ہوا ہے۔ پس معصوم سارے سارے دن چھوٹے گھر کھیلتا اور اگر بڑے گھر میں بلالے تو روتا اور مچلتا۔

ایک دن غیرت بیگم معصوم کا انگرکھا قطع کر رہی تھی کہ لونڈی سے کہا کہ جا ذرا معصوم کو جلدی بلالائیں انگرکھا اس کے قد سے ناپ لوں ایسا نہ ہو اونچا ہو جائے۔ لونڈی نے چھوٹے گھر میں جاکر کہا چلو میاں بی بی بلاتی ہیں۔ لونڈی کی صورت دیکھ کر اور طلبی سن کر معصوم زمین میں لیٹ گیا۔ بہتیرا لونڈی اٹھاتی ہے مگر نکل نکل پڑتا ہے۔ اس کشم کشتا میں تھوڑی دیر لگ گئی اور وہاں غیرت بیگم ہاتھ میں کپڑا لیے انتظار کر رہی ہیں۔

آخر دوسری کو دوڑایا کہ نسبتی معصوم کو بلانے گئی تھی وہیں مر کر رہ گئی۔ پس آپ بھی اس کے ساتھ کھیل میں لگ گئی۔ جا دونوں کو پکڑ کے تو لا۔ غیرت بیگم جو بگڑ اور خفا ہو کر زور سے بولی تو اپنے گھر میں ہریالی نے بھی سنا اور اس نے جلدی سے اٹھ کر معصوم سے کہا۔ آہا بڑی اماں کے یہاں کیسے کیسے بہار کے کپڑے ہیں، جلدی بھاگ کر جاؤ تمہاری بھی اچکن بیونتی جائے۔ وہ بڑی اماں بیٹھی کہہ رہی ہیں آنکھیں میچے کہ آج ذرا آتو لے، لیتی ہوں خبر۔ معصوم سامنے گیا تو غیرت بیگم بولی کہ موئے جان ہار یوں ہی سارے دن خدائی خوار خاک چھانتا ہے۔ پھر دیکھ اب تجھ کو کیسے ظالم استاد کے پاس پڑھنے بٹھاتی ہوں کہ تو بھی یاد کرے۔

معصوم: میں اپنی چھوٹی اماں کے پاس بھاگ جاؤں گا۔