فسانہء مبتلا/34

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

انیسواں باب: مبتلا اور عارف کا مباحثہ

عارف نے اس خیال سے کہ اس کو اچھی طرح بطور خود غور کر لینے دو۔ ایک ہفتے تک اس کی خبر نہ لی۔ پھر جو ملاقات ہوئی تو مبتلا کا تیور ہی بدلا ہوا تھا۔ پوچھا کیوں صاحب تم نے کچھ سوچا غور کیا۔

مبتلا: جی ہاں دوسرے نکاح کی ٹھہرائی ہے۔

عارف: (چونک کر) ایں دوسرا نکاح سچ کہو۔

مبتلا: کیا کروں میں بھی آدمی ہوں۔ میرے سینے میں بھی دل اور دل میں خواہش ہے۔ مجھ کو بھی موافق سے ر احت اور ناموافق سے ایذا پہنچتی ہے۔ میری زندگی کا زمانہ بھی محدود ہے اور جوانی کا تو محدود نہیں بلکہ مختصر۔ میں بھی اتنی بات سوچتا ہوں کہ دنیا سے ایک بار جا کر پھر آنا نہیں ان تمام باتوں پر نظر کر کے میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آخر مجھ کو تو آسائش ملے۔

عارف: بے شک آسائش جائز کو کون منع کر سکتا ہے اور تم پر کیا موقوف ہے۔ تمام آدمی کوشش کرتے ہیں اور سب کی کوششوں کا دینی ہو یا دنیاوی ماحصل ہے آسائش مگر غور طلب بات یہ ہے کہ جس کو تم نے آسائش سمجھا ہے وہ حقیقت میں بھی آسائش ہے یا نہیں۔

مبتلا: یہ تجویز کرنا میرا کام ہے۔

عارف: بس یہ غلط ہے ہم سب ہیں بیمار اور شارع ہے ہمارا طبیب۔

اگر بیمار کو اختیار دیا جائے کہ اپنی آسائش کے لیے آپ تجویز کرے تو بیمار یقینا اپنے تئیں ہلاک کریگا۔ مبتلا: آپ اطمینان رکھیے میں نے شرع ہی کے مطابق اپنی آسائش کی تجویز کی ہے کیا میں نے تمہیں کہا نہیں کہ دوسرے نکاح کی ٹھہرائی ہے۔ اگر بے نکاح کسی عورت کو گھر میں ڈال لینے یا پانچویں نکاح پڑھانے کا نام لیتا تب ہی آپ نے کان کھڑے کیے ہوتے۔

عارف: جو از تعداد نکاح کی نسبت تم نے جس طرح پر اپنا اطمینان کر لیا ہو، ذرا مجھ کو بھی تو سنا۔

مبتلا: میں تو آپ کے ادنیٰ شاگردوں کی برابری بھی نہیں کر سکتا۔ میرا کیا مقدور ہے کہ آپ کو سمجھاؤں مگر تعدد نکاح کی سند تو قرآن ہے۔

عارف: لیکن اسی کے آگے اللہ فرماتے ہیں کہ اگر تم کو یہ خوف ہو کہ متعدد بیبیوں میں برابری نہ کر سکو گے تو ایک ہی بی بی کرو اور سورة اور اسی پارے میں اور آگے چل کر فرمایا کہ تم بہتیرا چاہو مگر تم سے یہ ہو ہی نہ سکے گا کہ عورتوں میں برابری کر سکو۔

پس سارے کے سارے بھی ایک طرف کو مت جھک جاؤ کہ اس بے چاری کو ادھر میں لٹکتا ہوا چھوڑ دو۔ اب ان دونوں باتوں کو ملاؤ کہ برابر نہ کر سکو تو ایک کرو۔ اور تمہارے لیے برابری ہو ہی نہ سکے گی۔ ایک شخص نے حال ہی میں حرمتِ تعدد نکاح پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کے نزدیک ان دونوں آیتوں کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بس ایک بی بی کرو۔

مبتلا: ایسی ہی تفسیریں کر کے تو لوگوں نے دین میں رخنے ڈالے ہیں۔

پیغمبرﷺ اور ان کے صحابہ اور تابعین اور تمام بزرگان دین سب متعدد بیبیاں کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کو بھی یہ دونوں آیتیں معلوم تھیں اور قرآن کو سب سے بہتر سمجھتے تھے اور ان کاتدین بھی بہت زیادہ تھا۔ مگر کسی نے تعدد نکاح کی ممانعت کا نتیجہ نہ نکالا اور ”تم سے برابری ہو ہی نہ سکے گی“ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس برابری کی نسبت ارشاد ہے کہ تم سے ہو ہی نہیں سکے گی وہ پوری پوری برابری ہے۔

یعنی عدلِ حقیقی۔

کیونکہ مطلقِ عدل سے قاعدے کے مطابق فرد کامل مراد ہو گی اور وہ نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ تم سے عدل حقیقی تو ہو نہیں سکے گا تو ایسا بھی تو غضب مت کرو کہ ایک ہی طرف کے ہو رہو اور دوسری کو لٹکا رکھو۔ کہ وہ بے چاری بیچ میں پڑی جھولا کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عدل حقیقی کے علاوہ کہ وہ اعلیٰ درجے کا عدل ہے اور انسان سے اس کا ہونا ممکن نہیں۔

ایک ادنیٰ درجے کا عدل مجازی بھی ہے کہ انسان صرف ایک ہی کا نہ ہو رہے بلکہ دوسری کی بھی خبرگری کرتا رہے۔ چچا باوا کے رہتے میرے دل میں اس بات کا کھٹکا تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ ضرور مجھ کو ٹوکیں گے تو میں نے مولوی محمد فقیر سے اس مسئلے کی خوب تحقیق کی تھیں۔ میری سمجھ میں تو یوں آتا ہے کہ اس سے عدل مجازی مراد ہے کہ اگر تم کو اس بات کا ڈر ہے کہ تم ادنیٰ درجے کا عدل بھی نہ کر سکو گے اور بالکل ایک ہی کے ہو رہو گے تو ایسی صورت میں تم کو ایک ہی بی بی کرنی چاہیے اور اگر تعدد نکاح میں عدل حقیقی مشروط ہو تو فی الواقع جیسا آپ کہتے ہیں ممانعت ہوئی۔

تعلیق بالحال اور اگرچہ اس آیتہ میں بھی مطلق عدل ہے اور چاہیے کہ یہاں بھی عدل حقیقی مراد ہو۔ مگر دوسری آیت میں قرینہ صارف موجود ہے اور اگر خدا کو تعدد نکاح کی ممانعت منظور ہوتی تو تعلیق بالمحال کا پیرایہ اختیار کرنا کیا ضروری تھا۔ صاف صاف کہہ دینا تھا کہ بس ایک بی بی کرو نہ یہ کہ اگر عدل حقیقی نہ کر سکو تو ایک کرو کیونکہ یہ تو طے ہی تھا کہ عدل حقیقی مقدور بشر نہیں اگر اس سے ممانعت تعدد نکاح مراد ہو تو معاذ اللہ اس آیت کی ایسی مثال ہو گی کہ پوچھیں ناک کہاں ہے اور جواب میں بائیں کان سے شروع کر کے گدی کی طرف سے داہنی جانب ہاتھ لا کر بتایا جائے کہ یہ ہے۔

عارف: اس میں شک نہیں کہ مولوی محمد فقیر نے اس مسئلے کی اچھی تحقیقات کی اور تم نے جو کچھ سمجھا میرے نزدیک نہایت درست سمجھا۔ مگر پیغمبرﷺ صاحب سے جو تم نے استشہاد کیا اس کو میں نہیں مانتا۔ یہ دونوں آئتیں عام مسلمانوں کے واسطے ہیں۔ پیغمبرﷺ صاحب کے نکاح ان میں داخل نہیں۔ پیغمبرﷺ صاحب کے لیے سورئہ احزاب میں ایک پورا رکوع موجود ہے۔

پیغمبرﷺ صاحب کے لیے چار بیبیوں کی قید نہ تھی اور اگرچہ آنحضرت ازواج مطہرات میں اپنی طرف سے عدل فرماتے تھے۔ مگر خدا نے ان پر اس کو بھی لازم نہیں کیا تھا چنانچہ اسی رکوع میں ارشاد ہے کہ اپنی بیبیوں میں جس کو چاہو اپنے سے جدا رکھو اور جس کو چاہو بٹھا کر پھر بلا تو تم کو کچھ گناہ نہیں۔ اسی طرح پیغمبرﷺ صاحب کو بلا مہر بھی نکاح کر لینا جائز تھا اور یہ باتیں خصائص نبویﷺ میں سے ہیں اور کیا مصلحتیں پیغمبرﷺ صاحب کے ان ذاتی معاملات میں مضمر تھیں اس کے لیے تفصیل درکار ہے جس کے بیان کرنے کو بڑی فراست چاہیے۔

اسی طرح صحابہ وغیرہ سے استشہاد کرنے میں بھی تم کو درست نہیں سمجھتا۔

مبتلا: مذہباً یا عقلاً۔

عارف: یہ تو تم نے عجیب لغو بات پوچھی۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہب اور عقل دو چیزیں ہیں اور ممکن ہے کہ دونوں کی دوراہیں ہوں حالانکہ میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ مذہب مخالف عقل باطل، عقل مخالف مذہب گمراہ۔