فسانہء مبتلا/27

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

سولہواں باب: میرمتقی کے بعد مبتلا کی حالت

مبتلا کی تو اس وقت بعینہ ایسی مثال ہو گئی کہ ایک مریض مرض مہلک میں گرفتار ایک طبیب حاذق نے اس کا علاج شروع کیا ارادہ تھا کہ منبضح ہوں۔منبضحوں کے بعد مسہل۔ مسہلوں کے بعد تبرید پھر معجونات کا استعمال کرایا جائے۔ ابھی ابتدائی مرحلے بھی پورے نہ ہونے پائے تھے کہ طبیب صاحب تشریف لے گئے۔

سید اگرچہ اس کا پھوپھی زاد بھائی تھا مگر رشتہ داری کے جھگڑوں کے سبب ایک دوسرے کے ساتھ اُنس نہ تھا۔ رہ گئے میاں عارف مولوی تھے حکیم تھے، شگفتہ خیال تھے سب کچھ تھے مگر مبتلا کے چچا نہ تھے۔ مبتلا کو ان کا کیا لحاظ اور ان کو مبتلا کا کیا درد، پھر بھی بے چارے نے خدا ان کو جزائے خیر دے۔

میرمتقی کے کہنے پر اتنا تو کیا کہ پیر کے پیر جمعے کے جمعے مبتلا کے پاس آتے اور گھنٹے دو گھنٹے بیٹھ کر چلے جاتے، اسی طرح مبتلا بدھ کے بدھ اور اتوار کے اتوار عارف کے گھر جاتا اور یوں ایک دن بیچ دونوں کی ملاقات کا سلسلہ بندھ گیا اس سے اتنا تو ہوا کہ مبتلا کے پرانے یار دوستوں کو اس پر احاطہ کرنے کا موقع نہ ملا اور جس دُھرّے پر چچا نے اس کو لگا دیا تھا، اس پر تھوڑا چلا، سست چلا، بدیرچلا، دین داری میں اگر سچ پوچھو تو مبتلا نے ترقی نہیں کی مگر اس کا سنبھلا رہنا بھی غنیمت ہوا کہ پھر اس نے آوارگی نہیں کی، وہ نماز بھی پڑھ لیتا تھا مگر گنڈھے دار۔

اب دین کی باتوں کا اگر اہتمام نہیں کرتا تھا تو پہلے کی طرح ان پر ہنستا بھی نہ تھا، اس کی ظاہری وضع میں بھی اگلی سی سخاوت باقی نہ تھی۔

جب سے باپ مرے اس نے گھر میں سونا بالکل چھوڑ دیا۔ چچا کے آنے سے وہ پھر گھر میں سونے لگا تو ان کے چلے جانے کے بعد وہی معمول رکھا۔ غرض مبتلا دین دار نہیں تو ایک خانہ دار بھلا آدمی بن گیا تھا جیسے اکثر لوگ ہوتے ہیں مگر حسن پرستی کی ہڑک ہر روز دو ایک بار اس کو ابھرتی رہتی تھی۔


سترہواں باب: حسنِ صورت پر مبتلا اور عارف کا مباحثہ

ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ عارف کے آنے کا وقت تھا اور مبتلا بیٹھا ہوا، ان ہی کی راہ دیکھ رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اسی حسن پرستی کے خیال میں ایسا محو ہوا کہ عارف سر پر آ کھڑے ہوئے اور اس نے عادت کے مطابق نہ تو ان کا استقبال کیا اور نہ کھڑے ہو کر ان کو تعظیم دی۔

جب عارف نے جھک کر السلام علیکم کہا تب سٹ پٹا کر کھڑا ہونے لگا۔ مگر عارف بیٹھ چکے تھے۔ انہوں نے ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر بٹھا لیا اور پوچھا کہ خیر ہے آج کس خیال میں مستغرق تھے۔ مبتلا نے ٹالنا چاہا، عارف نے اصرار کیا نہیں کوئی بات تو ضرور ہے جس کو تم اس قدر غور کے ساتھ سوچ رہے تھے۔

مبتلا: غور کے بارے میں تو چچا نے مجھ پر بڑی سخت تاکید کی ہے۔

عارف: بلاشبہ ان کا فرمان درست ہے۔ غور کے معنے کیا ہیں۔ عقل سے کام لینا اور انسان نے اگر عقل ہی سے کام نہ لیا تو اس میں اور دوسرے حیوانات میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں، مگر پوچھنے سے میری غرض یہ تھی کہ اگر وہ بات مجھ پر ظاہر ہو تو جہاں تک مجھ سے ممکن ہو تمہاری مدد کروں۔ تمہارے چچا نے جن کو میں اپنے والد کی جگہ سمجھتا ہوں تم سے غور کرنے کو کہا اور مجھ سے تمہاری مدد کرنے کو۔

پس تم اگر ان کے کہنے کے پرغور کرتے ہو تو ان ہی کے ارشاد کے موافق مجھ سے مدد بھی لو۔

مبتلا: جس بات کو میں سوچ رہا تھا اکثر سوچا کرتا ہوں مگر ابھی تک کچھ سمجھ میں نہیں آیا تاہم اتنا تو جانتا ہوں کہ آپ سے اس میں کچھ مدد ملنے کی توقع نہیں۔

عارف: جب تک تم اس بات کو مجھ سے بیان نہ کرو اور میں جواب نہ دے دوں کہ میں کچھ نہیں کر سکتا۔

اس وقت تک تم کو میری مدد سے ناامید ہونے کا کوئی محل نہیں۔

مبتلا: اچھا تو آپ مدد کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

عارف: اجی تم سے کیا وعدہ کروں گا میں تو وعدہ کر چکا ہوں۔ جناب میرمتقی صاحب سے۔

مبتلا: اس خاص بات کا اس وقت تک کچھ مذکور نہ تھا۔

عارف: جناب میر صاحب نے کسی بات کا مذکور نہیں کیا، عام طور پر تمہاری مدد کرنے فرمایا اور میں نے اس کو تسلیم کیا۔

اس سے بڑھ کر اور وعدہ کیا ہو گا۔

مبتلا: آپ کو میرے خانہ داری کے حالات معلوم ہیں۔

عارف: جس قدر حالات جناب میر صاحب کو معلو م تھے۔ مجھ کو معلوم ہیں۔

مبتلا: چچا باوا نے آپ سے میری خانہ داری کے بارے میں کبھی کچھ کہا تھا۔

عارف: اکثر اس بات کا سخت افسوس کیا کرتے تھے کہ بی بی کے ساتھ تمہارا معاملہ درست نہیں۔

مبتلا: نادرستی معاملہ سے ان کی کیا مراد تھی۔

عارف: مراد یہ تھی کہ تم کو بی بی کے ساتھ انس نہیں محبت نہیں۔

مبتلا: بھلا اس کا کچھ سبب بھی انہوں نے بیان کیا تھا۔

عارف: ہاں یہ فرماتے تھے کہ تمہارے مزاج میں آوارگی ہے۔ حسن پرستی کے مزے پڑے ہوئے ہیں، دل میں یہ خبط سما رہا ہے کہ میں حسین ہوں، بی بی نظروں میں بھرتی نہیں۔

مبتلا: کیا چچا باوا اس بارے میں کچھ بھی کرنے کو تھے۔

عارف: بیشک فرماتے تھے کہ مطالب کو تو میں نے اپنے ذہن میں ترتیب دے لیا ہے۔ اب موقع کی تاک میں ہوں۔

مبتلا: شاید ان کا ارادہ تھا کہ اس پر بھی کوئی وعظ کہیں مگر بھلا ہو اس کی نوبت نہ آئی ورنہ چارو ناچار مجھ کو مخالفت کرنی پڑتی۔

عارف: کچھ تم نے پہلے وعظ کی مخالفت کی ہو گی کہ اس کی کرتے۔

مبتلا: پہلے وعظ میں چچا باوا نے کسی بات میں واقعات کی مخالفت نہیں کی۔ اس سے میں نے ان کی مخالفت نہیں کی مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خوبصورت کے بارے میں وہ کہتے تو کیا کہتے۔

عارف: میں نہیں کہہ سکتا کہ کیا کہتے مگر اتنا انہوں نے ضرور کہا تھا کہ جس قدر اس کی حسن کے ساتھ فریفتگی ہے انشاء اللہ اسی وقت نفرت کرنے لگے تو سہی۔