فسانہء مبتلا/25

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

چودہواں باب: مبتلا پر میرمتقی کے وعظ کے اثرات

مبتلا کو جب چچا نے پکڑ کر نصیحت سننے کے لیے بٹھایا تھا تو خواہ مخواہ اس کی طبیعت میں از خود ایک ضد سی آگئی تھی تاہم تھوڑی دیر ادب کی وجہ سے دم نہ مار سکا اور پھر تو میرمتقی کی باتوں پر ایسا ریجھا کہ آنکھیں اور منہ دونوں کے دونوں کھلے رہ گئے اور جب تک میرمتقی نے بات کو ختم نہیں کیا۔

مبتلا کو کوئی دیکھتا تو کیا معلوم ہوتا کہ بس حیرت کا ایک پتلا ہے، چچا کے پاس سے چلے جانے کے بعد بھی کئی دن تک وہ مبہوت سا رہا۔ اس کا دل تو مان گیا تھا کہ چچا نے جو کچھ کہا ٹھیک کہا مگر جس بات کی آن پڑ گئی تھی، اس کے بدلتے ہوئے اس کا جی ہچکچاتا تھا۔ آوارگی اس کی طبیعت میں یہاں تک سما رہی تھی کہ ترک وضع کرتے ہوئے اس کو عار آتی تھی وہ سوچتا تھا کہ چچا کے کہنے پر چلوں تو دوست آشنا کھانا پینا سیرتماشا تفریح تمام مشاغل سب تمامی مشاغل سب کو ایک دم سے چھوڑوں یعنی ترک دنیا کروں تو پھر جیوں کیونکر اور فرض کیا کہ جبراً قہراً میں نے ترک دنیا کیا بھی تو لوگ مجھ کو کیا کہیں گے۔

آخر پرہیزگار بنوں تو پورا پورا بنوں جیسے چچا زربفت کی ٹوپی تو اب میں پہننے سے رہا نا چار شملہ، دوپٹہ، عامہ باندھنا پڑے گا اور اس کی زاد میں بالوں کی جیسی گت بنے گی ظاہر ہے تو ضرور ہوا کہ سب سے پہلے سر منڈاؤں منڈے سر پر یہ خشخاشی داڑھی اور چڑھی ہوئی مونچھیں کیا بھلی لگیں گی تو لازم آیا کہ داڑھی چھوڑوں اور مونچھوں کو سیدھا کروں پھر ایسی مقطع صورت پر گلے میں کرتا نہ ہو تو خیر نیچی چولی کا انگرکھا اور ٹانگوں میں ایک برکا گھٹنا اس وجہ سے کیا منہ لے کر بازار میں نکلوں گا۔

ساری عمر کبھی مسجد میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اب جو ایک دم سے جا کھڑا ہوں تو جتنے نمازی ہیں سب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے گھور دیں گے غرض جن کو چھوڑتا ہوں اور جن میں جا کر ملتا ہوں سبھی کا انگشت نما ہونا پڑے گا۔

مبتلا اسی پس و پیش میں تھا کہ میرمتقی ایک دن اس کو وضو کرا کپڑے بدلوا اپنے ساتھ جمعہ کی نماز میں لے گئے اور اس کے بعد سے جب تک رہے نماز کو جاتے مبتلا کو گھر سے ساتھ لے کر نکلتے ہیں۔

غرض مبتلا کی وہ جھجک تو جاتی رہی اور اس کی وضع میں بھی رفتہ رفتہ اصلاح آتی چلی۔ اگر میرمتقی کا دو تین مہینے بھی اور رہنا ہوتا تو مبتلا کے درست ہو جانے میں کوئی کسر نہ تھی۔ اگرچہ میرمتقی نے کیا ہی کیا تھا، مبتلا کو صرف ایک وعظ سنایا۔ صرف اتنی سی کہ اس کی غفلت کو تازیانہ ہو۔ دیندار بھلامانس بنتے ہوئے جھینپتا تھا۔ اس کی شرمندگی مٹا دی۔

اگر زیادہ رہنے کا اتفاق ہوتا تو خدا جانے کتنے وعظ اور کہتے اور کیا کیا اس کو سکھاتے سمجھاتے۔ وہ تو اچھی طرح جانتے تھے کہ برسوں کے جمے ہوئے زنگ ہیں۔ یہ کیا ایک رگڑے سے چھوٹنے والے ہیں۔ حسن پرستی کا بڑا سخت عیب بھی گویا مبتلا کی گھٹی میں داخل تھا۔ میرمتقی موقع پاکر اس کا علاج کرتے پر کرتے مگر مبتلا کو تو اپنے اعمال کی شامت بھگتنی تھی۔