فسانہء مبتلا/20

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

بارہواں باب: سید ناظر کے فسادات

ناظر کو شروع میں صرف اسی پر اصرار تھا کہ غیرت بیگم کا حصہ نہ دوں، سٹامپ کے بستہ کا جلانا سن کر وہ بھائی پر نہایت برافروختہ ہوا اور اس نے دیوانی میں سالم حقیقت پدری کا دعویٰ دائر کیا۔ اس بیان سے کہ نہ حاضر میر باقر کا بیٹا ہے اور نہ غیرت بیگم میر باقر کی بیٹی۔

اس نے بات یہ بنائی کہ میرباقر کا اکلوتا بیٹا میں ہوں میرے پیدا ہونے میں دیر ہوئی تو میر باقر لے پالک کے طور پر حاضر کی پرورش اور پرداخت کرنے لگے اور اس بیان کی تائید میں سٹامپ کے کاغذ پر ایک وصیت نامہ پیش کیا جس پر میرباقر کی مہر تھی اور اس کا سوادِ خط بھی میر صاحب کے خط سے تھا۔ میرمتقی کی نسبت ایک گم نام عرضی لفٹینٹی میں پہنچی کہ سلطان روم کی طرف سے جاسوس بن کر آئے ہیں اور لوگوں کو چپکے چپکے جہاد کی ترغیب دیتے ہیں اور عنقریب ہندو مسلمانوں میں ان کے اغواء سے فساد عظیم ہونے والا ہے۔

متقی کو اس وقت تک داخل خارج کے سوا کچھ حال معلوم نہ تھا دور سے حاضر کو دیکھتے ہی خوش ہو کر لگے تحسین و رضا کی باتیں کرنے۔حاضر نے پاس آکر ناظر کی عرضی دعوے کی نقل دکھائی تو وہ ایسے سناٹے میں گئے کہ بہت دیر ہو گئی اور برا یا بھلا کوئی ہی لفظ منہ سے نہ نکالا تو حاضر نے خود ابتدا کی اور کہا کہ میں اس غرض سے حاضر ہوا تھا کہ میں تو اپنے میں ناظر کے مقابلہ کی طاقت نہیں پاتا۔

عزت کو، آبرو کو، سچائی کو، دین کو، ایمان کو، خوف کو، خدا کو، سب کو، ایک دم سے بالائے طاق رکھ دوں تو ناظر کے ساتھ لڑنے کا نام لوں اور یہ مجھ سے اب نہیں ہو سکتا، ہر چند رہ رہ کر غصہ آتا ہے اور بے اختیار جی چاہتا ہے کہ اس مرد کو اسی قانون سے جس پر اس کو بڑا گھمنڈ ہے اس کے کیے کی ایسی سزا دلواؤں کہ ساری عمر اس کو قید سے نجات نہ ہو اور اس کی تدبیریں سمجھ میں آتی ہیں اور میرے اختیار کی بھی ہیں۔

ناظر کتنا ہی قاعدہ داں اور ضابطہ شناس کیوں نہ ہو۔ آخر ہے تو مجھ سے چھوٹا لیکن آپ کے ارشاد کے مطابق میں خدا سے عہد کر چکا ہوں کہ دنیا کے لیے دین کو نہیں بگاڑوں گا اب دنیا میں ایک فضیلت نہیں ہزار فضیلت اور ایک نقصان نہیں ہزار نقصان کیوں نہ ہو جائیں اس عہد کو تو میں توڑ نہیں سکتا مگر ناظر کے حملے سے بچنے کے لیے میں نے ایک تدبیر سوچی ہے۔

میرغالب کو تو آپ جانتے ہوں گے وہ بھی ان دنوں سید نگر کے بڑے چلتے ہوئے پرزوں میں ہیں۔ سیدنگر خاص میں ان کا بھی تھوڑا سا حصہ ہے۔ ان کی وکالت آج کل بڑے زوروں پر ہے۔ چند روز ہوئے مجھ سے کہتے تھے کہ اگر کوئی حصہ بکتا ہو تو مجھ کو خبر کرنا تو میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ اپنا حصہ ان کے ہاتھ فروخت کر دوں جو اب ترکی بترکی۔ وہ ناظر سے سمجھ بوجھ لیں گے۔

اتنا ہی خیال ہے کہ گاؤں میں حصہ ہے تو رعایا پر سو طرح کی حکومت ہے مگر جس طرز پر مجھ کو آئندہ زندگی گزارنی منظور ہے اس کے لیے مجھے حکومت درکار نہیں۔ آپ سے اتنی بات پوچھنی تھی کہ اگر آپ کی صلاح ہو تو غیرت بیگم کے حصے کی بھی بات چیت میرغالب سے کی جائے، میں نہیں سمجھتا کہ غیرت بیگم کو ناظر چین لینے دے گا۔ یہ سن کر میرمتقی نے کہا کہ ان معاملات کو تم مجھ سے بہتر سمجھتے ہو۔

قرابت کے اعتبار سے بھی تم نزدیک تر ہو اور تمہارے معاملے کی سچائی کا یہی بڑا ثبوت ہے کہ تم نے بے نالش غیرت بیگم کو اس کا حق دیا اور دلوایا اور بلکہ حق کے واسطے تم نے بھائی سے بگاڑی اور اس بگاڑ کے نتائج کی پہلی قسط یہ عرضی ہے جو تم نے مجھ کو دکھائی۔ خدا حق ہے اور وہ حق سے راضی ہوتا ہے اور وہی حقداروں کی حمایت کرنے والا ہے اور انشاء اللہ آخر حق کو غلبہ ہے۔

اس بات میں تم اپنی بہن سے مشورہ کرو لیکن اگر میری رائے پوچھتے ہو تو شروع سے تم نے غلطی کی۔ تم نے وہ کیا اور آئندہ بھی وہی کرنا چاہتے ہو جو دنیا میں سبھی راست معاملہ کیا کرتے ہیں۔ بلاشبہ شرع کی رو سے تم پر کوئی الزام نہیں مگر الزام کے عائد نہ ہونے سے تم کسی تحسین کے بھی تو حقدار نہیں۔ تم کو اور غیرت بیگم دونوں کو صلاح دیتا ہوں کہ اگر کر سکو تو اپنے اپنے حق سے دستبردار ہو جاؤ ایسی کونسی بڑی مالیت ہے۔

خدا نے تم کو بہت کچھ دے رکھا ہے، ناظر کو موروسی کچوانسیاں مبارک، لے کر وہی بڑے آدمی نہیں آخر وہ بھی تو کوئی غیر نہیں گھی کہاں گیا کھچڑی میں۔ تین بہن بھائیوں کے پاس نہ رہا، ایک کے پاس رہا بلاشبہ حصہ گو کتنا ہی جزوی کیوں نہ ہو چھوڑنا مشکل ہے۔ خصوصاً جب کہ موروثی ہو اور اسی گاؤں کا ہو، جس میں رہنا سہنا ہے اور چھوڑنابھی اس حالت میں کہ گالی گلوچ تک کی نوبت پہنچ چکی ہولیکن تم خود کہتے ہو کہ اب بدوں فضیلت کے اس کا سنبھالنا ممکن نہیں۔

حصہ منتقل کر دینے کی تجویز جو تم نے سوچی ہے۔ صرف من سمجھوتی ہے، آخر اس کی تحقیقات ہو ہی گئی۔

تمہارے مقابلے میں ہو یا خریدار کے تم دونوں میر باقر کی اولاد ہو جیسا کہ واقعی ہے یا نہیں ہو جیسا کہ ناظر نے دعویٰ عرضی میں لکھا ہے۔ اگرچہ کامل یقین ہے کہ آخر کار تم کو ناظر کے مقابلہ میں ظفر ہو گی لیکن پھر بھی ہمیشہ کے لیے تم سے چھوٹ جائے گا اور تم اس سے مدت العمر تم کو باہمی خرشوں سے نجات ملنے کی امید نہیں مگر جو تدبیر میں بتاتا ہوں اس کا انجام جہاں تک میری سمجھ میں آتا ہے انشاء اللہ یہی ہونا ہے کہ حصے کا حصہ تمہارے پاس رہے گا اور تم بھائی بہن پھر ایک کے ایک ہو جاؤ گے تھوڑی دیر کے لیے فرض کرو کہ ناظر نے کل حصہ لیا مگر اس طرح کہ وہ لینا چاہتا ہے یعنی جھوٹ بول کر جعلی بنا کر بھائی کو بہن کو ماں باپ کو یعنی اپنے آپ کو رسوا اور فضیحت کرنا کیسا صاف صاف گالیاں دے کر تو ناظر یہ حصہ لے کر تم دونوں کو تو خیر چھوڑ ہی دے گا مگر کیا بیوی بچے رشتہ دار کنبہ دار قبیلہ برادری خاندان دوست آشنا جان پہچان ایک دم ساری دنیا کو چھوڑ دے گا۔

ایسا تو نہیں ہو سکتا مگر سمجھتے ہو کہ دنیا اس کو کیا کہے گی۔ لعنت کرے گی۔ یگانے اور بے گانے سب اس کے منہ پر تھوکیں گے۔ لڑکے اس کے پیچھے تالیاں پیٹیں گے سب کی نظروں میں وہ خوار اور بے اعتبار اور انگشت نما ہو گا۔ درودیوار اور کوچہ و بازار سے اس پر پھٹکار برسے گی۔

یہ حصہ ڈھاک کے کوئلے کا ایک دہکتا ہوا انگارہ ہو گا کہ وہ ہرگز اس کو مٹھی میں سنبھال نہ سکے گا۔

مشکل سے مشکل مقدمات اور پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات میں تم ایک مختار وکیل کے کہنے پر عمل کرتے ہو۔ اس ایک بات میں خدا کی صلاح پر بھی چل کر دیکھو کہ کیا نتیجہ ہوتا۔ خدا کی صلاح کیا ہے کہ اگر تجھ سے کوئی لڑائی کرے تو بھلائی کے ساتھ اس کا توڑ کر اور پھر دیکھ کہ یا تو تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی یا بات کی بات میں وہ تیرے ساتھ گرم جوشی کرنے لگا۔

حقیقت میں جیسی میرمتقی نے پیشین گوئی کی تھی ویسا ہی ہوا۔ حاضر اور غیرت کی طرف سے ناظر کے دعویٰ کی کچھ تردید نہ ہوئی، قاعدے کے مطابق دعوے یک طرفہ ڈگری ہو گیا۔ مگر کیسی ڈگری کہ حاکم اور عملے اور اہل معاملہ اور چپڑاسی اور مدکوری سبھی نے تو ناظر کو ملامت کی جہاں گیا اس نے لتاڑا اور جس سے ملا اس نے پھٹکارا اور آخر کار ہار کر جھک مار کر کلنک کا ٹیکہ ماتھے پر لگا کہ جس قدر گالیاں تقدیر میں تھیں سن کر جتنی بدنامی مقدمہ میں تھی بھگت کر بضد منت و بہزار خوشامد ہاتھ جوڑ کر پاؤں پڑ کر وہی دو خمس حصہ حاضر کو اور وہی ایک خمس غیرت بیگم کو دیا اور ساری عمر کے لیے ناحق بیٹھے بٹھائے بھائی بہن سے شرمندہ ہونا پڑا سو الگ۔