فساد دنیا مٹا چکے ہیں حصول ہستی مٹا چکے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فساد دنیا مٹا چکے ہیں حصول ہستی مٹا چکے ہیں
by بھارتیندو ہریش چندر

فساد دنیا مٹا چکے ہیں حصول ہستی مٹا چکے ہیں
خدائی اپنے میں پا چکے ہیں مجھے گلے یہ لگا چکے ہیں

نہیں نزاکت سے ہم میں طاقت اٹھائیں جو ناز حور جنت
کہ ناز شمشیر پر نزاکت ہم اپنے سر پر اٹھا چکے ہیں

نجات ہو یا سزا ہو میری ملے جہنم کہ پاؤں جنت
ہم اب تو ان کے قدم پہ اپنا گنہ بھرا سر جھکا چکے ہیں

نہیں زباں میں ہے اتنی طاقت جو شکر لائیں بجا ہم ان کا
کہ دام ہستی سے مجھ کو اپنے اک ہاتھ میں وہ چھڑا چکے ہیں

وجود سے ہم عدم میں آ کر مکیں ہوئے لا مکاں کے جا کر
ہم اپنے کو ان کی تیغ کھا کر مٹا مٹا کر بنا چکے ہیں

یہی ہیں ادنیٰ سی اک ادا سے جنہوں نے برہم ہے کہ خدائی
یہی ہیں اکثر قضا کے جن سے فرشتے بھی زک اٹھا چکے ہیں

یہ کہہ دو بس موت سے ہو رخصت کیوں ناحق آئی ہے اس کی شامت
کہ در تلک وہ مسیح خصلت مری عیادت کو آ چکے ہیں

جو بات مانے تو عین شفقت نہ مانے تو عین حسن خوبی
رساؔ بھلا ہم کو دخل کیا اب ہم اپنی حالت سنا چکے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse