فریاد جنوں اور ہے بلبل کی فغاں اور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فریاد جنوں اور ہے بلبل کی فغاں اور
by ریاض خیرآبادی

فریاد جنوں اور ہے بلبل کی فغاں اور
صحرا کی زباں اور ہے گلشن کی زباں اور

کٹ جائے زباں تیری تو ہو گرم زباں اور ہے
اللہ نے دی ہے تجھے اے شمع زباں اور

جنت بھی ہے دوزخ بھی ہے سینے میں ہمارے
یہ داغ نہاں اور ہے یہ سوز نہاں اور

ہو جائے سچ افلاس میں سنتا ہوں رہے گا
دو چار مہینے ابھی ماہ رمضاں اور

آغاز محبت میں یہ دل خون ہوا ہے
روئیں گے ابھی دیدۂ خوں نابہ فشاں اور

دنیا میں اب ایسا قدر انداز نہیں ہے
ہوتے ہی ہدف دل کے چڑھی ان کی کماں اور

جو پیتے ہیں پیتے نہیں وہ بھی رمضان میں
سنتا ہوں کوئی بند ہوئی مے کی دکاں اور

اچھا ہے رہیں جا کے لگ دونوں جہاں سے
عشاق کے رہنے کو بنے ایک جہاں اور

پینے کا مزا جب ہے کہ منہ خم سے لگا ہے
مجھ رند سے ساقی یہ کہے جائے کہ ہاں اور

نکلا ہے مرا نام کہ بے نام و نشاں ہوں
مجھ سا بھی نہ ہوگا کوئی بے نام و نشاں اور

سنتا ہوں مسلمانوں میں اب مانگ بہت ہے
ڈرتا ہوں مئے ناب نہ ہو جائے گراں اور

پہنچے در و دیوار کو نقصان تو کیا غم
رونے کے لیے لیں گے کرائے کا مکاں اور

تیز آتش سیال ہے پہلے سے زیادہ
اب آگ لگائے نہ ذرا پیر مغاں اور

دی ہم نے جگہ دل کو بھی آنکھوں کے برابر
آنکھوں میں سماتے نہیں وہ ہو کے جواں اور

مرنے کا ریاضؔ اپنے ذرا نام نہ لینا
جینا ابھی مر مر کے تجھے ہے مری جاں اور

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse