فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر
by شوق قدوائی

فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر
مانوں نہ حشر میں ترے منہ پر کہے بغیر

دیکھو یہ رنگ رخ کا شگوفہ کہ میرا عشق
ظاہر ہوا ہے کہنے سے بڑھ کر کہے بغیر

منہ دیکھتا ہی رہ گیا کہنے کو جب گیا
پلٹا میں حالت دل مضطر کہے بغیر

پکڑو مری زبان تو صورت سے ہوشیار
کھولے گی راز یہ سر محشر کہے بغیر

ہکلا کے آج میں نے کہا اس سے اپنا شوق
تسکین دل ہوئی نہ مکرر کہے بغیر

سننے کو تم کہو تو مرے دل کی ایک بات
برسوں سے پھر رہی ہے زباں پر کہے بغیر

کرتا ہے ہر سوال یہ حجت کی مشق وہ
کوئی جواب ہی نہیں کیوں کر کہے بغیر

معشوق ہی تو کتنا ہی بد تر ہوا اس کا جور
بنتی نہیں ہے بات ہی بہتر کہے بغیر

مانا کہ دل شکن تھیں سر بزم پھبتیاں
لیکن نہ رہ سکا کوئی مجھ پر کہے بغیر

میں یہ سمجھ گیا کہ وہ گھر میں نہیں ہے آج
درباں نے خود ہی کھول دیا دریا کہے بغیر

کیا کیا کہے ہیں شعر حسینوں کے وصف میں
کیا شوقؔ ہو گیا ہے سخنور کہے بغیر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse