فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر
by بیاں احسن اللہ خان

فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر
واں خون کی ہوس ہے نہیں آرزوئے شیر

ہے اس جواں کی بات میں اب تو لہو کی باس
وے دن گئے کہ آتی تھی اس منہ سے بوئے شیر

ہوتے ہی صبح آہ گیا ماہ چار دہ
ثابت ہوا مجھے کہ نمک ہے عدوئے شیر

حسرت ہی دل میں کوہ کن آخر یہ لے گیا
شیریں نے اپنی آنکھوں بھی دیکھا نہ روئے شیر

اس دودھ کا خدا کرے کاسہ ہمیں نصیب
جنت میں پنج تن کی جو بہتی ہے جوئے شیر

عاشق ہیں اپنے خون جگر خوار زہر نوش
رغبت طرف شکر کے ہے ان کو نہ سوئے شیر

جن کو بغیر سعی وہ شیریں دہن ملے
کھو دیں نہ کوہ وہ نہ کریں جستجوئے شیر

ملتے ہی اس سے دل کی گرہ میرے کھل گئی
عقدے شکر کے جیسے کھلیں روبروئے شیر

پھر دودھ کی بڑھاپے میں آوے نہ منہ سے باس
آخر کہاں تلک یہ بیاںؔ گفتگوئے شیر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.