فرصت ایک دم کی ہے جوں حباب پانی یاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فرصت ایک دم کی ہے جوں حباب پانی یاں
by شاہ نصیر

فرصت ایک دم کی ہے جوں حباب پانی یاں
خاک سیر ہو کیجے سیر زندگانی یاں

اب تو منہ دکھا اپنا کاش کے تو اے پیری
مل گئی تری خاطر خاک میں جوانی یاں

کیا یہ پیرہن تن کا جوں حباب چمکے تھا
باندھی ہے ہوا میری تو نے ناتوانی یاں

وقت گریہ موزوں ہو کیوں نہ آہ کا مصرع
رفتہ رفتہ اشک اپنا بن گیا فغانی یاں

جان من مجھے ہر دم تیرا پاس خاطر ہے
اس لیے میں کرتا ہوں دم کی پاسبانی یاں

اس کے تیر مژگاں سے ہو گیا جو دل چھلنی
بیشۂ نیستاں کی ہم نے خاک چھانی یاں

گھیر تو نے جامے کا بے طرح بڑھایا ہے
اب زمین ناپے گا دور آسمانی یاں

آگے اس کی قامت کے ایک دن جو اکڑا تھا
خوب سا بنا سیدھا سرو بوستانی یاں

یار کی گلی میں تو جا کے بیٹھ مت رہنا
حال پر مرے رکھنا چشم مہربانی یاں

قاصد سرشک اپنی تجھ سے ہے غرض اتنی
کھائے گر وہاں کھانا پیجو آ کے پانی یاں

خار سے خلش رکھنا اے نصیرؔ بے جا ہے
ہے یہ آبلہ پائی وجہ سر گرانی یاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse