فردوس بریں/ملاءِ اعلیٰ کا سفر
امام نجم الدین نیشا پوری اس عہد کے بہت بڑے امام تھے۔تمام زمانے میں ان کی اور ان کے علم و فضل کی شہرت تھی اور شاید کوئی مقام نہ ہو گا جہاں ان کے شاگرد مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کی مقتدائی نہ کر رہے ہوں۔حسین کے وہ استاد و مرشد ہی نہیں بلکہ چچا بھی تھے ، ان کا اصلی وطن شہر آمل میں تھا مگر کم عمری ہی میں طلبِ علم کے شوق میں گھر سے نکل گئے تھے۔ دنیا کی بڑی بڑی درس گاہوں میں شریک ہوکے بغداد پہنچے ! ایک مدت دراز تک مدرسہ نظامیہ میں طالب علمی کی۔ پھر مشرقی بلاد علم کی سیاحت میں مشغول ہوئے بخارا و ہرات کی علمی صحبتوں میں شریک ہوکے اور وہاں کے علماء کی درس گاہوں سے خوشہ چینی کر کے نیشا پور میں آئے اور وہں متوطن ہو گےہ۔ آپ ان دنوں وہ علم و فضل کے بڑے مرکز اور خدا شناسی کے نام ور قطب بنے ہوئے تھے۔ حسین نے ایک ایسے نیک نفس اور با خدا عزیز کے قتل کرنے کا حکم سنا تو یکایک کچھ ایسی حیرت وہ پریشانی غالب ہوئی کہ بے ہوش ہو گیا۔ شیخ علی وجودی نے اس کے ہوش میں لانے کی کوئی تدبیر نہ کی بلکہ اسی طرح زمین پر پڑا رہنے دیا۔ تھوڑی دیر تک تو وہ انتظار کرتے رہے کہ حسین خود ہی ہوش میں آ کے حکم بجا لانے کا وعدہ کرے مگر جب اسے ہوش آنے میں دیر ہوئی تو اسی طرح چھوڑ کے ایک دوسرے حجرے میں چلے گئے۔ شاید دو گھنٹوں کے بعد حسین کو ہوش آیا اور اس کے ساتھ ہی شیخ کا واجب التعمیل حکم بھی یاد آیا۔ قریب تھا کہ دریائے غفلت میں پھر ایک غوطہ لگائے مگر سنبھلا اور اٹھ کر چاروں طرف دیکھا: شیخ علی وجودی غائب تھے اور تنہا وہی وہ تھا۔ گزشتہ باتوں کو یاد کر کے حیرت کرنے لگا: "کیا مجھے شیخ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی؟ بے شک ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ ایےں نیک نفس اور حقیقت بین شیخ نے تو اس قسم کے سخت ظلم اور گناہ کا حکم نہ دیا ہو گا۔ مجھے قتل عمد کی ہدایت اور قتل بھی کس کا؟ شیخ نجم الدین نیشا پوری کا، جن سے بڑا عالم و فاضل اس وقت صفحۂ ہستی پر نہیں! یقیناً مجھ سے غلطی ہوئی۔ مگر فرض کیا جائے کی شیخ نے یہی حکم دیا ہے تو کیا مجھ سے یہ ہو سکے گا کہ اپنے استاد،مرشد اور با خدا چچا کو قتل کر ڈالوں؟(کانپ کر) بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ دنیا کیا کہے گی؟ اور پھر دین میں بھی تو ہے کہ"من قتل مومناً مت عمداً فقد کفر۔"اس حکم کو بجا لا کے سوا ا س کے کہ روسیاہی دارین حاصل کروں اور کوئی فائدہ نہیں نظر آتا۔ لیکن ہاں شیخ نے کہا تھا کہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہے ؛ اس میں بھی کوئی فائدہ ضرور پوشیدہ ہو گا۔ حقیقت بینی اور رموز قدرت جاننے میں امام نجم الدین، شیخ علی وجودی ک مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ یہ خیال میں آتا ہے کہ شیخ علی وجودی کی نیت بری ہو گی۔ کوئی تعجب نہیں اگر کسی روحانی مصلحت سے انھوں نے بہ ظاہر ایسے مکورہ کام کا حکم دے دیا ہو۔اس میں بھی کوئی فائدہ ضرور مقصود ہو گا۔ حقیقت بینی اور رموز قدرت جاننے میںامام نجم الدین،شیخ علی وجودی کا مقابلہ نہیںکر سکتے۔ اور نہ یہ خیال میںآتا ہے کہ شیخعلی وجودی کی نیت بری ہے۔ کوئی تعجب نہیںاگر کسی روحانی مصلحت سے انھوںنے بہ ظاہر ایسے مکروہ کام کا حکم دے دیا ہو۔واقعی اگر یہ ہی حکم ہوا ہے تو مجھے تامل نہ کرنا چاہیے ،یہ میرا پہلا امتحان ہے ، اگر ذرا بھی عذر کیا تو گناہ گار بھی ہوںگا اور زمرد کے وصال سے بھی محروم رہوں گا۔اس تعمیل حکم میںدینی فائدہ تو بدیہی ہے کیوں کہ شیخ کا امر واجبالاذعان ہے۔ باقی رہی دنیاوی بدنامی،اول تو اس کی کوئی ہستی نہیں، اور اگر کسی قدر ہے بھی تو اس کے عوض یہ کتنا بڑا فائدہ ہے کہ پیاری زمرد کی ہم کناری اسی زندگی میںنصیب ہو جائے گی۔بے شک مجھے کسی قسم کا عذر نہ کرنا چاہیے۔ دل میںی خیالات جما کے حسین حجرے سے نکلا اور مختلف حجروںمیںڈھونڈتا ہوا اس حجرے میںپہنچا جس میںشیخعلی وجودی تھے۔ ان کی صورت دیکھتے ہی قدموں پر سر رکھ دیا اور چلایا:"مجھے وہ حکم نہیںیاد رہا۔جلدی بتائیے کہ تعمیل کو روانہ ہوں۔" شیخ: دیکھو تمہیں اب کی تامل نہ ہو۔مجھے اندیشہ ہے کہ تمھارے دل میں بدگمانی پیدا ہو اور تم اپنی ساری محنت ضائع کر دو۔ خوب یاد رکھو کہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہے۔ حسین :خوب یاد ہے اور مجھے ذرا تامل نہ ہو گا۔ شیخ: تو جاؤ امام نجم الدیننیشاپوری کو قتل کر دو۔ حسین: (دل کو مضبوط کر کے )بہتر، اگر میں مار ڈالا گیا؟ شیخ: کوئی مضائقہ نہیں،بلا زحمت زمرد سے جا ملو گے۔مگر مجھے معلوم ہے ایسا نہ ہو گا۔ حسین:تو میںرخصت ہوتا ہوں۔ شیخ: ٹھہرو!(ایک تیز خنجر نکال کے ) لو! اس خنجر کو اپنے پاس چھپا کے رکھو اور جس وقت موقع ملے اسی سے کام لینا۔ وہ مرشد کا عطا کیا ہوا خنجر لے کے حسین نے اپنے استاد کی جان لینے کے لیے مشرق کی راہ لی۔ ڈیڑھ مہینے بعد بغداد پہنچا؛ وہاںسے چل کے اصفہان اور اصفہان سے ایک مہینے بعد نیشا پور پہنچ گیا۔حلب سے نکلے چار مہینے ہوئے تھے کہ وہ امام نجمالدین کی درسگاہ میںداخل ہو گیا۔ امام موصوف پہچانتے ہی بغل گیر ہوئے اور بے انتہا شفقت سے پیش آئے۔ گھر کے خطوط سے انھیںیہ خبر معلوم ہو چکی تھی کہ حسین ایک شریف لڑکی کو ساتھ لے کے بدنامی کے ساتھ نکل گیا۔ جس کا تذکرہ کر کے انھوںنے افسوس کیا اور کہا :" حسین!مجھے ایسی امید نہ تھی کہ علم کو اس ذوق و شوق سے حاصل کر کے تم اس کی بے حرمتی کرو گے۔" حسین: یا عم! میںکسی بری نیت سے نہیںگیا تھا؛ زمرد کا عقد میرے ہی ساتھ ہونے والا تھا اور وہ حج کی بے انتہا مشتاق تھی۔ اسی علم دین کی وجہ سے مجھے نہ گوارہ ہوا کہ اس کی اس دینی خواہش کا لحاظ نہ کروں، بے تامل ساتھ لے کے چل کھڑا ہوا۔ امام: اور اب کہاں ہے ؟ حسین: جبالطالقان کی گھاٹیوں میںپریوںکے ہاتھ سے مار ڈالی گئی۔ امام: (مسکرا کر) ایسا مہمل و بے سروپا قصہ بنانے سے کیا حاصل جسے کوئی تسلیم ہی نہ کرے گا؟ حسین: جس بے تکلفی سے میںنے یہ قصہ بیان کر دیا ہے ؛ اسی سے آپ اندازہ فرما سکتے ہیںکہ میرے بیان میںکسی بناوٹ کو دخل نہیں۔ امام: خیر اب یہاںکس غرض سے آئے ہو؟ حسین: آپ کے حلقہ درس میںشریک ہونے کے لیے۔زمرد کے غم میںمیںنے ارادہ کر لیا ہے کہ علائق دنیوی کو چھوڑ دوں اور چاہتا ہوںکہ یہ باقی ماندہ زندگی تحصیل علم میںہی صرف ہو جائے۔ امام: اگر ایسا ہے تو خدا تمہارے ارادے میںبرکت دے اور تمہیں توفیق ہو کہ میرے بعد اس درسگاہ کے مالک بنو۔ الغرض حسین امام نجم الدین نیشا پوری کے خوشہ چینوںمیںشامل ہو گیا،اور چوں کہ بھتیجا تھا،ان کے دل میںروز بروز اپنا زیادہ اعتبار پیدا کرتا گیا۔مگر اس کے ساتھ ہی وہ اپنا موقع بھی ڈھونڈرہا تھا۔ امام اکثر اوقات طلبا اور معتقدین کے مجمع میںرہتے جس کی وجہ سے تین مہینے گزر گئے اور حسین کو خنجر نکالنے کا موقع نہ ملا۔ چوتھے مہینے میںچھ دن ہی گزرے تھے کہ اتفاقاً امام کو بخار نے شدت سے آ لیا اور کئی دن تک درس وہ تدریس کا سلسلہ موقوف رہا۔ اس بیکاری کے زمانے میں اکثر طلبا تو ادھر ادھر سیر میںرہتے مگر حسین نے شیخکی تیمار داری میںانتہا سے زیادہ گرم جوشی اور سعادت مندی کا مظاہرہ کیا۔ شب و روز ان کی دیکھ بھال اور خدمت گزاری میںمصروف رہتا۔ امام کو بخار آئے چھٹا دن تھا کہ ایک رات کو اتفاقاً ان کے حجرے میں اکیلا حسین ہی تھا۔ رات زیادہ آ چکی تھی اور امام بچھونے پر لیٹے ناتوانی کی آواز میںباتیںکر رہے تھے۔ حسین خلاف معمول آج زیادہ خاموش تھا۔ ان کی باتوںپر ہنکاری تو ضرور بھرتا تھا مگر اس کے سوا کوئی لفظ اس کی زبان سے نہ نکلتا تھا۔ کئی مرتبہ امام کو تعجب بھی ہوا،بلکہ ایک مرتبہ پوچھنے لگے : "حسین آج تم خاموش کیوں ہو؟" مگر حسین نے "یوںہی" کہہ کے ٹال دیا۔حسین ساکت تھا اور بار بار باہر نکل کے تاروں سے دریافت کرتا تھا کہ رات کتنی آئی۔ آخر آدھی رات گزر گئی اور حسین کو اطمینان ہو گیا کہ اب صبح تک کوئی نہیںآئے گا۔ اس بات کا یقین کر کے اس نے حجرے کا دروازہ خوب مضبوطی سے بند کر لیا اور پاس جا کے دیکھا تو امام کی بھی آنکھ لگ گئی تھی۔ دیر تک کھڑا ان کی صورت دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوںمیںخون اترتا آتا تھا ساعت بہ ساعت اپنے بزرگ اور استاد پر کاری وار کرنے کے لیے تیار ہوتا جاتا تھا۔ اس قسم کے خوںریز کاموںسے وہ کبھی آشنا نہ تھا؛ دل کو زور دے دے کے ابھارتا تھا مگر خیالات ایسا پلٹا کھاتے کہ بار بار ہمت ہار دیتا۔ حجرے میں ہر طرف اسے ایسی خیالی صورتیںدکھائی دیتیںاور ان کا رعب پڑتا تھا کہ معلوم ہوتا جیسے فرشتے یا کسی اور قسم کی غیر جسمانی مخلوق امام کی حفاظت پر مامور ہے۔خود امام کا چہرہ اس کے خیال کی آنکھوںمیںکبھی نہایت ہی نورانی بن کے سفارش کرتا اور کبھی بھیانک اور مہیب نظر آ کے ڈرا دیتا۔ مگر ان سب خیالات کو اس نے مٹایا؛ شیخ علی وجودی کا عطا کیا ہوا خنجر نکال کے اس کی باڑھ دیکھی اور یکایک دل مضبوط کر کے امام کے سینے پہ چڑھ بیٹھا۔ امام نے چونک کے آنکھ کھولی ہی تھی اور چلانے ہی کو تھے کہ اس کا بایاں ہاتھ اُن کے منہ پر اور خنجر ان کے دل میںتھا۔ چند ہی لمحے میںامام کی روح پرواز کر گئی۔ خون تمام حجرے میں پھیلا ہوا تھا۔ بے جان لاش خون آلود کپڑوں میںلپٹی بستر پر پڑی تھی۔ اور گو یہ کوئی روز آوری کا کام نہ تھا مگر حسین کے دل کو اتنی بڑی شدید حرکت ہوئی تھی کہ کھڑا ہانپ رہا تھا اور بار بار اپنے ہاتھ کے معصوم شہید کی مظلومانہ صورت کو ڈر ڈر کے دیکھتا۔ آخر حسین نے ان سب چیزوں کو اسی حال میںچھوڑا،حجرے میںخوفناک سین پر سہمی ہوئی آنکھوںسے آخری نظر ڈالی اور دروازہ کھول کے نکلا۔حجرے کا دروازہ باہر سے بند کر دیا اور چپکے چپکے قدم اٹھاتا ہوا چلا۔ شاید زیادہ وقت نہ صرف ہوا ہو گا کہ وہ شیخ کی خانقاہ سے دور نکل گیا۔ نیشا پور کے گرد نہایت ہی مضبوط فصیل تھی اور پھاٹک رات کو بند ہو جاتے تھے جس کے سبب سے اس وقت اسے شہر سے باہر نکلنے میںبہت دشواری نظر آئی۔ مگر وہ جان پر کھیل کے ایک تیرہ و تار بدرو سے باہر نکلا،اور نکلتے ہی نہایت تیزی سے بھاگا، تاکہ صبح ہونے سے پہلے ہی اتنی دور نکل جائے کہ اسے کوئی پا نہ سکے۔ دوسرے دن جب وہ شوق کے پروںسے اڑتا ہوا خراسان کے مغربی میدان اور جنگل قطع کرتا چلا جاتا تھا، اس وقت اس کے حواس ذرا ٹھکانے ہوئے اور اپنا ظلم و گناہ یاد آیا جو ہر پہلو سے برا نظر آتا تھا۔ اس خیال کے مٹانے کی برابر کوشش کرتا تھا مگر بار بار زبان سے ایک آہ کے ساتھ یہ جملہ نکل ہی جاتا تھا کہ "میںبڑا گناہگار ہوں!" اس کا دل اور اس کا ایمان اس پر لعنت کر رہا تھا۔ لعنت اور پھٹکار کی آواز کان میںآتی تھی اور وہ چونک چونک کے کہتا کہ " اس فعل کے ذمہ دار شیخعلی وجود ہیں" مگر خود ہی دل میںقائل ہو جاتا کہ امام کا کام تو میرے ہاتھ اور میری سنگدلی نے تمام کیا ہے ، ذمہ داری کسی اور کے سر کیوںکر جا سکتی ہے۔اب اس کے دل نے شیخکے اس اصول میںبھی شک پیدا کیا کہ مرید مرشد کے ہاتھ میںصرف ایک بے جان اور غیر ذمہ دار آلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ آپ ہی آپ کہنے لگا:" انھیںعلمائے روحانین کا یہ مسئلہ اگر صحیحہے کہ ثواب اور عذاب اسی لذت و الم کا نام ہے جو اپنے کردار کے نتائج میںخود اپنے کانشس اور دل کی تحسین و ملامت سے پیدا ہوتے ہیں تو انسان کے فعل کا کوئی دوسرا ذمہ دار نہیںہو سکتا۔ فرضکرو کہ میںنے ایک کام کیا اور گو وہ کسی مشیر و صلاحکار کے خیال میں اچھا ہو مگر میرے نزدیک برا اور قابل ملامت ہے توا س کے ارتکاب پر میرا دل مجھ پر ضرور لعنت کرے گا۔ اور جب اسی لعنت کے الم کو اصطلاحِ شرع میںعذاب سے تعبیر کیا ہے ، تو بے شک میںدوزخاور عذاب سے نہ بچ سکوںگا۔"الغرض خود حسین کے دل نے اسے قائل کیا؛ اب وہ پچھتا رہا ہے اور سخت روحانی تکلیف میںمبتلا ہے مگر اس کے ساتھ ہی شیخعلی وجودی کی وقعت بھی ساتھ ہی دل میں موجود ہے۔شیخکی وہ ایسی ایسی کرامتیںدیکھ چکا ہے کہ ان پر بدگمانی نہیںکر سکتا،بلکہ بعضاوقات ڈر جاتا ہے کہ کہ شیخغیب کے اور دلوں کے حالات سے واقف ہیں،میرے یہ شکوک کہیںان کو معلوم ہو گے تو غضب ہو جائے گا۔ ادھر سے بھی جاؤںگا اور ادھر سے بھی۔ اتنے بڑے گناہ کے ارتکاب کے بعد بھی زمرد کے وصال سے محروم رہا تو حسرت ہی رہ جائے گی۔ حسین اسی قسم کے خیالات دل میںلیے ندامت کے دریا میںغرق اپنے فعل پر پچھتاتا ہوا شہر حلب میںداخل ہوا اور شیخکے سامنے جاتے ہی قدموں پر گرنے کو تھا کہ انھوں نے اُٹھا کے گلے سے لگا لیا اور نہایت ہی جوش سے کہا: "حسین!تو اپنے امتحان میں پورا اُترا اور اب زمرد تجھ سے زیادہ تیری مشتاق ہے۔ اُس نور لا نور نے انوار ازلی نے تیرے دل پر پورا انعکاس کیا اور تیرے جسم کی اس مشت خاک نے یہ صلاحیت پیدا کر لی کہ اس عالم نور اور سروشستان کی تجلیات کی متحمل ہو سکے۔" حسین: مگر یا حضرت! میرے دل میں اپنے اس ظالمانہ فعل کی نسبت طرحطرحکے شبہات پیدا ہوتے ہیں؟ شیخ: (جوش میں آ کر) بے شک پیدا ہوتے ہوںگے۔ روحاس مادے کی کثافت سے بڑی دشواریوںسے علیحدہ ہو سکتی ہے اور صرف یہی چیز ہے جو ان شکوک و شبہات کو پیدا کرتی ہے۔ وہ مرکز اشراقی جو باوجود لاحی ہونے کے حیات سرمدی کا سرچشمہ ہے ، اس جسمانی روحپر جو قفس عنصری میںمقید ہے ، اپنے تنوعات کو بمشکل آشکارا کر سکتا ہے۔ حسین: مگر ایسے اطمینان بخش نصائح ارشاد ہوںکہ دل سے یہ شبہات نکل جائیں۔ شیخ: سن اے حسین!استقلال تیرے شکوک کو دور کر دے گا،بشرطیکہ تو ان کو دفع کرنے کی کوشش میںمشغول رہے۔ مگر تیرے اطمینان کے لیے میںکہہ سکتا ہوںکہ دنیا میںتکمیل نفس اسی کا نام ہے اور یہی منشاء الہیٰات ہے کہ روحکے تعلقات اس جسم سے علیحدہ کیے جائیں۔ جسمانی افعال پر تصرف کرتے کرتے روح عادی ہو جاتی ہے کہ بلا استعانت مادہ کوئی کام نہ کر سکے۔ اور وہ روحییںجو جسم کے چھوڑتے وقت تک انھِیںمادیات میں پھنسی رہ گئیں وہ بعدمیںبھی ہر وقت اپنے گرد مادے کا تیرہ و تار غبار پاتی ہیں۔ اور یہی چیز اصطلاحشرع میں اِن کا دوزخہے۔ نجات کی کوشش یوںہونی چاہیے کہ زندگی ہی میں روحکے علائق جسم سے کم کر دیے جائیں۔اس کوشش میںابتدا اس سے ہوتی ہے کہ جسم سے ایسے کام لیے جائیںجن سے روحکو تعلق نہ ہو۔ روح بیتاب ہو ہوکے اُن کی طرف متوجہ ہونا چاہے اور انسان بہادری اور مضبوطی سے اُسے جبراً روکے۔یہی الہیٰات کی تعلیم اولیٰ ہے دوسری یعنی تعلیم وسطیٰ یہ ہے کہ روحایسے کام کرے جن سے جسم کو کوئی تعلق نہ ہو۔ جو لوگ دور دراز شہروںمیں اپنی روح سے اثر ڈال دیا کرتے ہیں ان کی نسبت سمجھ لینا چاہیے کہ وہ عالم روحانیات کے اس درمیانی درجے کو طے کر رہے ہیں۔ اس کے بعد تیسرا درجہ یہ ہے کہ روح جسم سے اتنی علیحدگی حاصل کر لے کہ اس نور لا نور کے ان کشافات کی جستجو میںمادے سے مبرا و منزہ ہوکے ملکوت اور عالمِ لاہوت کی سیر کرے۔ اور اس تیسرے درجے یا اس اعلیٰ جستجو کے زمانے میں جو کوئی مر جاتا ہے وہ جسم خاکی کو الوداع کہتے ہی اس نقطہ اولیٰ یا ذات واجب الوجود اور علت العلل سے جا ملتا ہے۔ اس وقت اُسے وہ اعلیٰ کمال روحانی حاصل ہوتا ہے جس کی تحصیل کے لیے اس نے عالم مادی کی یہ قید اٹھائی تھی اور اس آخشیجستان کے مصائب میںمبتلاہواتھا۔۔ اب اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک طرف تو تعلقات جسدی کی مادی تعلیمات سے اس میںیہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جب چاہے اہل عالم کے سامنے اپنے آپ کو متہیز اور متشکل کر کے دکھا دے اور دوسری طرف اس میںکمال روحانیت و تجرد اس درجے کا ہوتا ہے کہ جب چاہے اس نقطۂ ازل اور اولیٰ مرکز نور لا نور سے جا ملے۔لہٰذا اے حسین! تو اس مدرسۂ روحانیت کی ابتدائی جماعت میں ہے اور ابھی اسی امر کی مشق کر رہا ہے کہ تیرے ارکان و جوارح سے ایسے افعال و حرکات صادرہوں جن کی طرف روح بے صبری سے متوجہ ہو اور تو اسے زبردستیاںاور نفس کشیاں کرے دوسری طرف منسوب کرے۔یہ لعنت و ملامت جو تیرا نفس اور تیری روحتجھ پر کر رہی ہے ،اسی تعلق روحی کا نام ہے جس کے قطع کرنے کی تجھے کوشش کرنا چاہیے۔اور جس تو یہ کمال حاصل کر لے گا کہ تیری روحتیرے اعضاء کے کسی فعل کی طرف توجہ ہی نہ ہوا ُس وقت تُو درجہ توحید میںقدم رکھے گا۔ حسین: تو میں ان الزاموںاورملامتوںکی پرواہ نہ کروںجو خود میرے دل سے مجھ پر پڑ رہی ہیں؟ شیخ: ہرگز نہیں، اسی امر کی تجھے مشق کرنا ہے اور اس نور ولا نور کی طرف توجہ کرنے کا یہی پہلا زینہ ہے۔ حسین: حضرت!اس خداوند جل و علا کو نور لا نور کیوںفرماتے ہیں اس کا رمز میںنہیںسمجھ سکا۔ وہ حضرت رب العزت بے شک نور ہے مگر لا نور کیوں؟ شیخ: (برہم ہوکے ) وہ نقطہ وحدت اور وہ سر چشمہ تکوین اس سے بالکل منزہ ہے کہ ہم اپنے مادی خیال کے صفات کو اس کی جانب منسوب کریں۔ وہ ایسا ہے کہ "لیس کمثلہ شئی"۔ حسین: مگر جب خود اللہ جل شانہ ہی نے ان صفات کو اپنی طرف منسوب کر لیا تو ہمیںکیا تامل ہو سکتا ہے ؟ شیخعلی وجودی کی برہمی کی اب کوئی انتہا نہ تھی۔ انھوںنے اب کے حسین کے غضب آلود اور آتش بار آنکھوںسے گھور کے دیکھا اور بولے : "بے شک انسان ظلوم و جہول ہے !یہ تیرے خیال مین نہیںآتا کہ ہم بھی محض اسی کے ارشاد کے موجب ان صفات کو اس کی طرف منسوب کر دیےا ہیں۔ ہم اسے نور کہتے ہیںمگر چوںکہ ہمارے خیال کے نور سے وہ منزہ ہے ،لہٰذا پھر اسے لا نور بھی کہہ دیتے ہیں۔" حسین: بے شک صحیح ہے ؛ اب میرا اطمینان ہو گیا؛ اور انشاءاللہ کبھی اپنے افعال پر نہ پچھتاؤںگا۔لیکن اُمیدوار ہوںکہ اب مجھے وہ سروشستان دکھا دیا جائے جہاںمیری زمرد ان اجرام فلکی کے پہلو میں بیٹھی جلوہ افگنی کر رہی ہے۔ شیخ: بہتر۔ یہ کہہ کے شیخنے اٹھ کے اپنا کتابوں کا صندوق کھولا،اس میںسے ایک چھوٹی سی کتاب نکالی،پھر اس کے ورق الٹ کے ایک خط نکالا اور اس خط کو حسین کے ہاتھ میں دے کر کہا: "لے !اس خط کو احتیاط سے رکھ اور اسی وقت روانہ ہوکے شہر اصفہان کی راہ لے۔یاد رکھ کہ اصفہان کے شمالی پھاٹک کے باہر ایک شکستہ اور قریب الانہدام مسجد ہے۔ اس مسجد میں تُو ایک فقیر کو پائے گا جو بظاہر تو بھیک مانگتا ہے مگر باطن میںبڑا خدا شناس شخص ہے۔یہ فقیر ہر وقت ایک دنبے کی کھال اوڑھے رہتا ہے اور انساوراً یہ صدا لگا کے راہ گیروںسے مانگتا ہے کہ "دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ"۔ کاظم جنونی(نسخہ مطبوعہ قومی پریس دہلی 1321ھ میں کاظم جنونی کو بعض مقامات پر کاظم جنوبی لکھا گیا ہے۔کاظم جنوبی بھی صحیحہو سکتا ہے۔ لیکن چوںکہ بیشتر مقامات پر جنونی ہے ،اس لیے زیر نظر نسخے میںلفظ جنونی کو ترجیحدی گئی ہے اور ہر جگہ کاظم جنونی لکھا گیا ہے۔) اس کا نام ہے۔ یہ خط لے جا کے اُس شخص کے ہاتھ میںدے اور میرا سلام کہہ۔ رات کو وہ تجھے ایک غار میںلے جائے گا،جہاںتو ایک بڑے واقفِ اسرارِ سرمدی سے ملے گا اور اسی وقت تو جنت کے مدارج طے کرنا شروع کرے گا اور چند ہی روز کی زندگی میںجو زیادہ تر خواب کی سی ہو گی،فردوس بریں کی اعلیٰ منازل میںجاپہنچے گا۔" حسین نے یہ خط لے کے شیخ کے ہاتھ کو بوسہ دیا، پھر رخصت ہونے کے طریقے سے اس کے قدم چومے اور اصفہان کے طرف رخ کر کے چل کھڑا ہوا۔اس کا یہ سفر زیادہ اطمینان بخش تھا۔ گناہ کی ندامت و ملامت کے اثر کو شیخ علی وجودی کی تقریر نے اس کے دل سے بالکل محو کر دیا تھا۔ امید و آرزو کا باغ اس کی آنکھوںکے سامنے تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ گویا زمرد آ کے ہم کنار ہوا ہی چاہتی ہے۔الغرض اسی اطمینان اور انھی مسرتوںکے ساتھ بغداد ہوتا ہوا اصفہان پہنچا۔شمالی پھاٹک کے باہر مسجد کے دروازے پر متردد کھڑا تھا کہ کان میں آواز آئی"دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ" فوراً دوڑ کے مسجد میںگیا ور شیخکا خط نکال کے کاظم جنونی کے ہاتھ میںدے دیا جو دنبے کی کھال اوڑھے بیٹھا زورو شور سے صدائیں لگا رہا تھا۔ کاظم جنونی نے حسین کو حیرت و استعجاب کی نظر سے دیکھا اور ایک جوش وحشت کے لہجے میںچلا اُٹھا:"حذر! حذر! از اہل عالم حذر!!" مگر جب خط کو پڑھا تو فوراً اٹھ کے بغل گیر ہوا اور کہا"میںنہیںسمجھا تھا کہ شجر معرفت کی ایک شاختم بھی ہو۔ آؤ بیٹھو، کھا پی کے آرام لو،رات ہو تو تم کو شیخ الجب(جب غار کو کہتے ہیں۔شیخ الجب سے مراد ہے غار والا شیخ) کے پاس لے چلوں۔ انھوںنے غیابتہ الجب(یعنی غار میںچھپ جانا) اختیار کر لی ہے۔ دن چوںکہ مظہر نور ہے لہٰذا دن بھر وہ اپنے اوپر انوار لاہوت اکبر کا انعکاس کرتے ہیںاور رات چوںکے تیرہ و تار اور نمونۂ ظلمت ہے لہٰذا اسی ظلمت میںوہ مادی پیکروں سے ایک گونہ علاقہ پیدا کر لیےے ہیں۔" حسین: مگر معلوم نہیںمجھ سے گناہ گاروں اور سیہ کاروںسے وہ ملنا بھی پسند کریںگے یا نہیں؟ کاظم جنونی: ضرور ملیںگے ؛ شجر معرفت کی ایک شاختم بھی تو ہو۔ حسین دن بھر اسی مسجد میںرہا اور شام کے بعد جب ایک ثلث رات گزر گئی تو کاظم جنونی اسے ساتھ لے کے بیرونی کوہستان کی طرف روانہ ہوا۔بہت سے نشیب و فراز طے کرے اور کئی گھاٹیوںسے گزر کے کاظم ایک بڑے غار کے دہانے پر ٹھہر گیا اور زور سے چلّایا: "یا شیخ الجب! ظلمت مادہ میں ایک جگنو چمکا ہے۔" مگر کچھ جواب نہ ملا۔ پھر کاظم جنونی نے پکار کے کہا: "ایک آئینے سے پردہ اُٹھا جو تجلیات انوار لاہوتی سے منعکس ہونا چاہتا ہے۔" اب بھی کوئی آواز نہ آئی۔ کاظم جنونی پھر پکارا: "ایک آخشیجی پیکر کا مقید اسرارِ سروشستان جاننے کے لیے بے صبر ہے۔" اس تیسری صدا پر غار کے اندر سے چٹانوں میںگونجتی اور اندھیرے میں سنسناتی ہوئی آواز آئی: "مرحبا! جوان آملی مرحبا! جنت کی ایک حور دو سال تیرے سے تیرے فراق میں بے تاب ہے۔ میںنے اپنی سیر لاہوتی میں ایک طرف اس حور کو فردوس بریںکے کوشکوںمیںروتے اور دوسری طرف تجھے راہ طلب میں قدم مارتے دیکھا ہے۔ اب یہیںسے تجھے لذائذ سروشستانی حاصل ہونے لگیںگے ؛ آ اور قدرت کے کرشمے دیکھ۔" اس جملے کے ساتھ ہی غار کی تہ میںایک روشنی نمودار ہوئی اور کاظم جنونی نے حسین سے کہا: " بس اب آگے میں نہیںچل سکتا،مجال نہیں کہ ایک قدم بھی آگے بڑھاؤں۔" حسین: کیوں؟ کاظم جنونی: اگر یک سر موے برتر پرم فروغ تجلی بسوز پرم جاؤ اور یقین جانو کہ تم شجر معرفت کی ایک شاخہو۔ یہ سنتے ہی حسین نے کاظم جنونی کو اوپر چھوڑا اور خود جوش دل کی بے خودی میںامید و آرزو کے خواب دیکھتا ہوا غار میں اترا۔ تھوڑی دور تک تو ادھر اُدھر کی چٹانوں سے ٹکریںکھاتا رہا مگر جب انتہا پر پہنچ گیا جہاںاُسے روشنی نظر آئی تھی تو داہنی طرف ایک زینہ ملا۔اس زینے کے ذریعے وہ اور زیادہ نیچے گیا تو اپنے وہم و گمان کے خلاف اس خوفناک کوہستان اور درندوں کے مسکن کے نیچے ایک نہایت ہی وسیع،عالی شان اور بہت با رونق مکان نظر آیا جس میںہر طرف کافوری شمعیںروشن تھیں۔ عود و لوبان سلگ رہا تھا۔ در و دیوار پر طلائی رنگ پھیر کے نقش و نگار بنائے گئے تھے اور انھیں بیل بوٹوں میں رنگین پتھر اور شیشے کے ٹکڑے جڑے تھے۔ جن پر شمعوںکا عکس پڑ کے ہر سمت ایک عجب عالم نور پیدا کر رہا تھا۔ حسین اس تمام سامان عیش کو دیکھ کے مبہوت و از خود رفتہ ہو گیا ور ایک بے صبری کے جوش میںچلاّ اٹھا "کیا فردوسِ بریں یہی ہے ؟" کہیںقریب ہی سے تسلی آمیز لہجے میںآواز آئی:" نہیں،مگر سروشستان کی سیر کرنے والوںکے لیے یہ پہلی منزل ہے جس میںٹھہرا کے وہ اس قابل بنائے جاتے ہیںکہ جنت کی مسرتو ںکو یکایک دیکھ کے از خود رفتہ نہ ہو جائیں۔‘ حسین: مگر آپ کونہیں اور کہاںہیں کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکے شکر گزار ہوں؟ آواز: میں تیرے قریب ہی ہوں۔ ناگہاںایک لاجوردی منقش پردہ جو پہلے دیوار کا دھوکا دے رہا تھا، کھنچ کے نظر سے غائب ہو گاز اور ایک معمر مگر قوی الجثہ اور نہایت ہی نورانی صورت کا آدمی نظر آیا جو زرتار مسند پر گاؤ تکیے سے لگا ہوا عجب بے پروائی اور بے نیازی کی شان سے بیٹھا تھا۔اُس کا نورانی چہرہ آئینے کی طرحصاف تھا ور اس وقت چاروں طرف سے شمعوں اور نیز در و دیوار کے شیشوںکی ضو پڑنے سے آفتاب کی مثل چمک رہا تھا اور سفید لمبی ڈاڑھی مقیش کی جھالر یا آفتاب کی کرنوںکا دھوکا دیتی تھی۔ حسین یہ نورانی صورت دیکھتے ہی پروانے کی طرحدوڑ کے قدموں پر گرا اور کہا: " آپ کون ہیں؟ شاید رضوان آپ ہی کا نام ہے ؟" پیر مرد: نہیں، ابھی تُو اس تیرہ خاک دان عنصری ہی کی حدود میںہے۔ مگر ہاںتیری آنکھوںپر سے پہلا پردہ اُٹھا ہے۔ اہل دنیا مجھے شیخ الجب کہتے ہیں مگر اہل حقیقت کی اصطلاحمیںطور معنی کہلاتا ہوں۔ حسین: (حیرت سے )طور معنی! حقیقت میںیہ نور ہو گا جو موسیٰ کو طور پر نظر آیا تھا۔ طور معنی: مگر تُو اسے ستر ہزار حجابوں کے اندر سے دیکھ رہا ہے۔ حسین: للہ وہ سب پردے بھی اُٹھا دیجیے۔ طور معنی: ابھی ان مادی کثیف آنکھوںمیںاس کی قابلیت نہیں، مگر صبر کر،اسی کا سامان ہو رہا ہے اور یہ سب پردے اُٹھ جائیںگے۔ یکایک ایک خوبصورت نوعمر لڑکے نے آ کے ایک شربت کا لبریز جام طور معنی کے ہاتھ میں دیا اور طور معنی نے اُسے اپنے ہاتھ سے حسین کی طرف بڑھا کے کہا:" لے اس جام کو پی اور ملکوت سے ایک درجہ اور قریب ہو جا۔" حسین نے فوراً وہ جام پی لیا جس کے ساتھ ہی اس کا دماغ چکر کھانے لگا اور وہ طور معنی کے سامنے لیٹ کے غافل سو گیا۔ اس غفلت اور از خود رفتگی کی نیند میںکئی دفعہ اس کی آنکھ کھلی اور ہر مرتبہ وہ اپنے آپ کو ایک نئے مقام میںپاتا تھا۔ کبھی سرسبز و شاداب میدانوںمیںہوتا اور کبھی وحشت ناک اور پُر خطر گھاٹیوںمیں۔ ہر بیداری میں فرشتے یا انسان تھے مگر کسی غیر معمولی قسم کے لوگ اسے سروشستان سے اور زیادہ قریب ہونے کا یقین دلاتے اور وہ یقین کر لیتا۔آخر ایک مرتبہ اس کی آنکھ کھلی تو اوہ ایک نئے جوان شخص کے سامنے تھا۔ یہ شخص حریر سرخکے کپڑے پہنے تھا جس پر سنہرا کام تھا۔ ا س کے سر پر نہایت ہی قیمتی اور بیش قیمت تاج تھا اور اس میںاعلیٰ درجے کے جواہرات ٹکے ہوئے تھے۔حسین کی آنکھ جیسے ہی اس خوبصورت نوجوان کے سامنے کھلی جو شاہانہ لباس پہنے اور مرصع تاج سر پر رکھے تھا،نہایت ہی التجا اور عاجزی کے لہجے میںکہنے لگا: " امید و انتظار نے بے صبر کر دیا ہے۔" شخص: اے جسم خاکی! تو مراحل تجرد کو طے کر چکا۔تجھے نہیںخبر کہ توآسمان کے قریب اور فردوس بریںکے دروازے پر ہے۔ اب نہ گھبرا؛ ملائکہ مقربین تیرے انتظار میں ہیںاور حوریںتیرے لیے بناؤ سنگار کر رہی ہیں۔ حسین: اور آپ کونہیں؟ شخص: میںوہ برزخ ہوں جو لاہوت و ناسوت میں واسطہ ہے۔ یہی میرا جسم ہے جو کبھی نور بن کے طور سینا پر چمکا تھا۔ یہی وہ نور ہے جو مسیح کے جسم سے خدائی کی شان دکھاتا رہا تھا اور مُردوںمیںزندگی کی چراغ روشن کر دیتا تھا۔ یہی وہ نور ہے جو ازراق مجرد کی شان سے رسول آخر الزمان(صلی اللہ علیہ و سلم) کے سینے میں چمکا اور یہی وہ نور ہے جو امامت کی مشعل روشن کر کے معصوم جسدوںکو بدلتا رہا۔ حسین: تو آپ ہی جبرئیل ہیں؟ شخص: جبرئیل بھیمیرے ہی تنوعات کی ایک چھوٹی سی شمع ہے۔ حسین: شاید آپ ہی وہ حی لایموت ہیں؟ شخص: حی لایموت نہیں، حی لا حی۔ مگر اس تشخصکے ساتھ میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ، گو یہ ضرور کہوں گا کہ "انا خالق الارواح،انافائق الاصباح"(میںہی پیدا کرنے والا ہوںروحوں کا اور میںہی چاک کرنے والا(دامان) سحر کا ہوں۔ لیکن اس وقت تو ایک پیکر متحیز میںہوںاور وہ امام بن کے نمودار ہوا ہوں جس پر ایمان لانا ہر مکلف پر فرض ہے۔ حسین: (ہاتھ سے ہاتھ ملا کے ) تو میںبھی آپ کی امامت اور اس مظہر نقطۂ وحدت کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں۔ شخص: حسین سن! تو منزل مقصود کو پہنچ گیا۔ مدارج صعود طے ہو گے۔ اور عنقریب اُ س پر شوق آغوش میںہو گا جو دو سال سے تیرے لیے کھلا ہوا ہے۔اگرچہ اب کوئی دنیاوی عبادت تجھ پر فرضنہیں۔تاہم ارضی کثافت کا باقی ماندہ اثر دل سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سروشستان کے پھاٹک پر تین دن تک بیٹھ کے تو ایک مختصر سی عبادت کرے۔ لیکن شبانہ روز تیری زبان سے صرف یہ ہی کلمہ نکلنا چاہیے کہ" یا مرکز النور اغرقی فی بحار انوارک"(اے مرکز نور! مجھے اپنے نوروںکے سمندر میںغرق کر!) مگر شرط یہ ہے کہ چاہے کچھ کھا لے مگر ان تین دن میںپانی کا کوئی قطرہ تیرے حلق سے نہ اترے۔ اتنا کہہ کے تاجدار شخص چند روٹیاںچھوڑ کے چلا گیا اور اس کے جاتے ہی مکان کے سب دروازے یکایک اور ایک ساتھ بند ہو گےن۔حسین پہلے تو یہ حالت اور اپنی تنہائی دیکھ کے گھبرایا مگر فورّا اس کے آخری مرشد و امام کی نصیحت یاد آئی اور ریاضت و وظیفے میں مشغول ہو گیا۔ علی الاتصال ایک ہی جملہ کہتے رہنے اور پھر پانی نہ پینے کا یہ نتیجہ نکلا کہ تیسرے روز پیاس نے مجنوں بنا دیا تھا۔ہونٹوں سے لے کے سینے تک سارا گلا خشک تھا اور سوا سائیںسائیںکے کوئی آواز نہ نکلتی تھی،مگر زمرد کے شوق میںوظیفے سے زبان نہ رکی اور اسی استقلال اور خود فراموشی سے دعا پڑھے جاتا تھا۔ تیسرے روز حسین زبان حال سے العطش پکار رہا تھا کہ وہ تاج دار نوجوان شاہانہ لباس پہنے ہوئے آیا اور کہا: " لے ! اب سفر جنت کے لیے تیار ہو۔ تیری ریاضت پوری ہوئی، تُو نے سب مراحلِ یقین طے کر لیے اور کوئی چیز نہیںباقی رہی جو اس راہ میں تیری مزاحم ہو۔مگر ہاں تو پیاسا ہے ،ذرا اپنے آپ کو تازہ دم کر لے۔"اس شخص کی زبان سے یہ جملہ پوری طرح نکلنے بھی نہ پایا تھا کہ ایک نہایت ہی حسین و نازنین عورت ایک سونے کا مرصع جام ہاتھ میں لیے جو ایک خاص قسم کے لطیف و خوش رنگ شربت سے ملبب تھا، حاضر ہوئی؛ اس شخص نے جام کو اس حسینہ کے ہاتھ سے لے کر حسین کی طرف بڑھایا اور کہا: " لے یہی وہ شراب طہور ہے جس کے دور فردوس بریںمیں ہمیشہ چلتے رہتے ہیں۔اس کے پینے سے تیری پیاس،ماندگی،تھکن اور جملہ بدمزگیاںجاتی رہیںگی اورتو نہایت ہی نورانی و روحانی سرور کے ساتھ جنت میں داخل ہو گا۔" حسین نے فوراً وہ جام لے کے منہ سے لگا لیا اور پیاس کی ایسی شدت تھی کہ دو ہی تین گھونٹمیںاُتار گیا۔ایک لحظہ نہ گزرا ہو گا کہ اُسے اپنے سر میں ایک گرانی سے معلوم ہونے لگی جس کے ساتھ ہی خمار آلود آنکھیںچھپک جھپک کے بند ہو گئیں۔وہ بے ہوش تھا اور بے ہوش بھی ایسا کہ سرو پا کی خبر نہ تھی۔