فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا
فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا
کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا
شکست دل کا باقی ہم نے غربت میں اثر رکھا
لکھا اہل وطن کو خط تو اک گوشہ کتر رکھا
برابر آئینے کے بھی نہ سمجھے قدر وہ دل کی
اسے زیر قدم رکھا اسے پیش نظر رکھا
مٹائے دیدہ و دل دونوں میرے اشک خونیں نے
عجب یہ طفل ابتر تھا نہ گھر رکھا نہ در رکھا
تمہارے سنگ در کا ایک ٹکڑا بھی جو ہاتھ آیا
عزیز ایسا کیا مر کر اسے چھاتی پہ دھر رکھا
جناں میں ساتھ اپنے کیوں نہ لے جاؤں گا ناصح کو
سلوک ایسا ہی میرے ساتھ ہے حضرت نے کر رکھا
نہ کی کس نے سفارش میری وقت قتل قاتل سے
کماں نے ہاتھ جوڑے تیغ نے قدموں پہ سر رکھا
غضب برسے وہ میرے آتے ہی معلوم ہوتا ہے
جگہ خالی جو پائی یار کو غیروں نے بھر رکھا
بڑا احساں ہے میرے سر پہ اس کی لغزش پا کا
کہ اس نے بے تحاشا ہاتھ میرے دوش پر رکھا
زمیں میں دانۂ گندم صدف میں ہم ہوے گوہر
ہمارے عجز نے ہر معرکہ میں ہم کو در رکھا
ترے ہر نقش پا کو رہ گزر میں سجدہ گہ سمجھے
جہاں تو نے قدم رکھا وہاں میں نے بھی سر رکھا
امیر اچھا شگون مے کیا ساقی کی فرقت میں
جو برسا ابر رحمت جائے مے شیشوں میں بھر رکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |