Jump to content

فدا کر جان اگر جانی یہی ہے

From Wikisource
فدا کر جان اگر جانی یہی ہے
by سراج اورنگ آبادی
294503فدا کر جان اگر جانی یہی ہےسراج اورنگ آبادی

فدا کر جان اگر جانی یہی ہے
ارے دل وقت بے جانی یہی ہے

یہی قبر زلیخا سیں ہے آواز
اگر ہے یوسف ثانی یہی ہے

نہیں بجھتی ہے پیاس آنسو سیں لیکن
کریں کیا اب تو یاں پانی یہی ہے

کسی عاشق کے مرنے کا نہیں ترس
مگر یاں کی مسلمانی یہی ہے

برہ کا جان کندن ہے نپٹ سخت
شتاب آ مشکل آسانی یہی ہے

پرو تار پلک میں دانۂ اشک
کہ تسبیح سلیمانی یہی ہے

مجھے ظالم نے گریاں دیکھ بولا
کہ اس عالم میں طوفانی یہی ہے

زمیں پر یار کا نقش کف پا
ہمارا خط پیشانی یہی ہے

وو زلف پر شکن لگتی نہیں ہات
مجھے ساری پریشانی یہی ہے

نہ پھرنا جان دینا اس گلی میں
دل بے جان کی بانی یہی ہے

کیا روشن چراغ دل کوں میرے
سراجؔ اب فضل رحمانی یہی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.