فدا اللہ کی خلقت پہ جس کا جسم و جاں ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فدا اللہ کی خلقت پہ جس کا جسم و جاں ہوگا
by برجموہن دتاتریہ کیفی

فدا اللہ کی خلقت پہ جس کا جسم و جاں ہوگا
وہی افسانۂ ہستی کا میر داستاں ہوگا

یقیں جس کا کلام قدس اجرالمحسنیں پر ہو
نکو کاری کا اس کی قائل اک دن کل جہاں ہوگا

حیات جاودانی پائے گا وہ عشق صادق میں
جو عنقا کی طرح معدوم ہوگا بے نشاں ہوگا

سفر راہ محبت کا چہل قدمی سمجھتے ہو
ابھی دیکھو گے تم اک اک قدم پر ہفت خواں ہوگا

ہمیں گلزار جنت ہے عزیزو باغ دل اپنا
سمجھتے ہو کہ جاں پرور ہے صحن گلستاں ہوگا

جو ایثار اور ہمدردی شعار اپنا بنا لوگے
تو کانٹا بھی تمہیں رشک گل باغ جناں ہوگا

یہ قصہ شمع و پروانے کا بس ماوشا تک ہے
وہ ہو جائے گا بزم آرا تو پھر کوئی کہاں ہوگا

ادائے فرض برحق پر کھپا دو دوستو جاں تک
یہ وہ سودا ہے آخر کو نہیں جس میں زیاں ہوگا

ازل سے واعظو کے قول دنیا سنتی آئی ہے
عمل کا وقت بھی کوئی کبھی اے مہرباں ہوگا

تغافل اور ستم کے بدلے ہے انداز دل داری
سنبھل اے شوق بے پایاں ترا اب امتحاں ہوگا

تہی دستان قسمت کو تو دم لینا قیامت ہے
یہاں کچھ ہو گیا انصاف عاشق جو وہاں ہوگا

نہ سمجھو کھیل اس کو بزم کیفیؔ میں وہ جادو ہے
یہاں گر زاہد خشک آئے گا پیر مغاں ہوگا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse