Jump to content

فتنہ گر کیا مکان سے نکلا

From Wikisource
فتنہ گر کیا مکان سے نکلا
by داغ دہلوی
331807فتنہ گر کیا مکان سے نکلاداغ دہلوی

فتنہ گر کیا مکان سے نکلا
آسماں آسمان سے نکلا

دل میں رہنے نہ دوں ترا شکوہ
دل میں آیا زبان سے نکلا

وہم آتے ہیں دیکھیے کیا ہو
وہ اکیلا مکان سے نکلا

سچ تو یہ ہے معاملہ دل کا
باہر اپنے گمان سے نکلا

میرے آنسو کی اس نے کی تعریف
خوب موتی یہ کان سے نکلا

ہم کھڑے تم سے باتیں کرتے تھے
غیر کیوں درمیان سے نکلا

ذکر اہل وفا کا جب آیا
داغؔ ان کی زبان سے نکلا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.