فاسق جو اگر عاشق دیوانہ ہوا تو کیا
فاسق جو اگر عاشق دیوانہ ہوا تو کیا
دنیا کے مطالب کو فرزانہ ہوا تو کیا
غفلت میں کوئی پڑ کر گر عمر کو کھو ڈالے
بعد اس کے اگر سمجھا پھر سیانا ہوا تو کیا
یہ عمر غنیمت ہے جو دم کہ گزرتا ہے
گر خانہ ہوا تو کیا ویرانہ ہوا تو کیا
نظارہ تو کر اے دل ہو شان میں دلبر کا
گر بھوکا جو ٹل جاوے پھر کھانا ہوا تو کیا
دے جام تلطف سے ساقی بہ لب تشنہ
دل پیاس سے جب کملا پیمانہ ہوا تو کیا
ہے کام ستے مطلب بر آوے کسی ڈھب سے
کعبہ جو ہوا تو کیا بت خانہ ہوا تو کیا
جو مرد یگانہ ہے نفس اپنے سے لڑتا ہے
گر اور طرح کوئی مردانہ ہوا تو کیا
الجھا ہے یہ دل پیارے زلف اپنی کو سلجھاوے
جب مر گئے جانی ہم پھر شانہ ہوا تو کیا
مکھڑے کی جھمک ساجن ٹک ہم کو بھی دکھلاؤ
گر آگے رقیبوں کے جھمکانہ ہوا تو کیا
گر سیر میسر ہو تجھ حسن کے باغستاں
بعد اس کے اگر مجھ کو مر جانا ہوا تو کیا
دل اپنے بیگانے سے کچھ ہم نے نہ پھل پایا
گر اپنا ہوا تو کیا بیگانہ ہوا تو کیا
کہتا تھا میں اس دل کو عاشق تو نہیں ہونا
اب بس کے اگر سمجھا پچھتانا ہوا تو کیا
مستانہ ہمیشہ رہو اے عاشق افریدیؔ
بے عشق اگر کوئی مردانہ ہوا تو کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |