فاسق جو اگر عاشق دیوانہ ہوا تو کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فاسق جو اگر عاشق دیوانہ ہوا تو کیا
by قاسم علی خان آفریدی

فاسق جو اگر عاشق دیوانہ ہوا تو کیا
دنیا کے مطالب کو فرزانہ ہوا تو کیا

غفلت میں کوئی پڑ کر گر عمر کو کھو ڈالے
بعد اس کے اگر سمجھا پھر سیانا ہوا تو کیا

یہ عمر غنیمت ہے جو دم کہ گزرتا ہے
گر خانہ ہوا تو کیا ویرانہ ہوا تو کیا

نظارہ تو کر اے دل ہو شان میں دلبر کا
گر بھوکا جو ٹل جاوے پھر کھانا ہوا تو کیا

دے جام تلطف سے ساقی بہ لب تشنہ
دل پیاس سے جب کملا پیمانہ ہوا تو کیا

ہے کام ستے مطلب بر آوے کسی ڈھب سے
کعبہ جو ہوا تو کیا بت خانہ ہوا تو کیا

جو مرد یگانہ ہے نفس اپنے سے لڑتا ہے
گر اور طرح کوئی مردانہ ہوا تو کیا

الجھا ہے یہ دل پیارے زلف اپنی کو سلجھاوے
جب مر گئے جانی ہم پھر شانہ ہوا تو کیا

مکھڑے کی جھمک ساجن ٹک ہم کو بھی دکھلاؤ
گر آگے رقیبوں کے جھمکانہ ہوا تو کیا

گر سیر میسر ہو تجھ حسن کے باغستاں
بعد اس کے اگر مجھ کو مر جانا ہوا تو کیا

دل اپنے بیگانے سے کچھ ہم نے نہ پھل پایا
گر اپنا ہوا تو کیا بیگانہ ہوا تو کیا

کہتا تھا میں اس دل کو عاشق تو نہیں ہونا
اب بس کے اگر سمجھا پچھتانا ہوا تو کیا

مستانہ ہمیشہ رہو اے عاشق افریدیؔ
بے عشق اگر کوئی مردانہ ہوا تو کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse