فائدہ آنے سے ایسے آ کے پچھتائیں ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فائدہ آنے سے ایسے آ کے پچھتائیں ہیں ہم
by میر حسن دہلوی

فائدہ آنے سے ایسے آ کے پچھتائیں ہیں ہم
اٹھ گئے جب یاں کے گزرے آہ تب آئیں ہیں ہم

اور کچھ تحفہ نہ تھا جو لاتے ہم تیرے نیاز
ایک دو آنسو تھے آنکھوں میں سو بھر لائیں ہیں ہم

طرفہ حالت ہے نہ وہ آتا ہے نہ جاتا ہے جی
اور یہاں بے طاقتی سے دل کی گھبرائیں ہیں ہم

جس طرف جاتے وہاں لگتا نہیں کیا کیجیے
اس دل وحشی کے ہاتھوں سخت اکتائیں ہیں ہم

دیکھیے اب کیا جواب آوے وہاں سے ہم نشیں
نامہ تو لکھ کر حسنؔ کا اس کو پہنچایں ہیں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse