غیر کے گھر ہیں وہ مہمان بڑی مشکل ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیر کے گھر ہیں وہ مہمان بڑی مشکل ہے
by نسیم بھرتپوری

غیر کے گھر ہیں وہ مہمان بڑی مشکل ہے
جان جانے کے ہیں سامان بڑی مشکل ہے

کہتے ہیں آپ ہیں جس بات کے طالب ہم سے
ہے وہی غیر کو ارمان بڑی مشکل ہے

اور پھر کس سے کہوں حال پریشانیٔ دل
تم تو ہوتے ہو پریشان بڑی مشکل ہے

بے ملے کام بھی چلتا نہیں ملنا بھی ضرور
غیر سے جان نہ پہچان بڑی مشکل ہے

اس نے لی جان ہزاروں کی یہ دم دے دے کر
ہم پہ مرنا نہیں آسان بڑی مشکل ہے

وہ اٹھا لیتے ہیں یہ رکھ رکھ کے چھری گردن پر
کام ہوتا نہیں آسان بڑی مشکل ہے

راز دل اس بت بد خو سے کہوں یا نہ کہوں
بات نازک ہے وہ نادان بڑی مشکل ہے

روز کہتے ہو کہ تو کس کے لئے ہے بیتاب
جان کر بنتے ہو انجان بڑی مشکل ہے

دوستی سہل نہیں اس بت بد خو سے نسیمؔ
ضد نہ کر دیکھ مری جان بڑی مشکل ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse