غیر کے گھر بن کے ڈالی جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیر کے گھر بن کے ڈالی جائے گی
by نسیم بھرتپوری

غیر کے گھر بن کے ڈالی جائے گی
کیوں کر ان کی عید خالی جائے گی

آپ نے باندھی ہے کیوں تلوار آج
کیا مری حسرت نکالی جائے گی

پھنس چکا دل ہو چکی آشفتگی
اب طبیعت کیا سنبھالی جائے گی

جان کا دینا مجھے منظور ہے
ان کی فرمائش نہ ٹالی جائے گی

ان پہ ظاہر ہو نہ اے دل شوق مرگ
تیغ گردن سے اٹھا لی جائے گی

دل کو واپس تم سے کیا مانگیں گے ہم
دے چکے جو شے وہ کیا لی جائے گی

کیوں نہ وہ بے چین ہوئیں گے نسیمؔ
سیدوں کی آہ خالی جائے گی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse