غیر کی خاطر سے تم یاروں کو دھمکانے لگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیر کی خاطر سے تم یاروں کو دھمکانے لگے
by سعادت یار خان رنگین

غیر کی خاطر سے تم یاروں کو دھمکانے لگے
آ کے میرے روبرو تلوار چمکانے لگے

جی میں کیا گزرا تھا کل جو آپ رکھ قبضہ پہ ہاتھ
خوب سا گھورے مجھے اور تن کے بل کھانے لگے

دل طلب مجھ سے کیا میں نے کہا حاضر نہیں
یہ غضب دیکھو مچل کر پاؤں پھیلانے لگے

قتل کر کر یہ نہیں معلوم کیا گزرا خیال
دیکھ وہ بسمل مجھے کچھ حیف سا کھانے لگے

یار مجھ کو دیکھ زا رونا تو ان سا ہجر میں
مشفقانہ کچھ نصیحت جبکہ فرمانے لگے

جل کے رنگیںؔ میں نے یہ مصرع تجلیؔ کا پڑھا
دل کو سمجھاؤ مجھے کیا آ کے سمجھانے لگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse