غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو
by میر حسن دہلوی

غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو
کیا غضب کرتے ہو ادھر دیکھو

خاک میں مت ملاؤ دل کو مرے
جی میں سمجھو ٹک اپنا گھر دیکھو

دیکھنا زلف و رخ تمہیں ہر وقت
شام دیکھو نہ تم سحر دیکھو

گل ہوئے جاتے ہیں چراغ کی طرح
ہم کو ٹک جلد آن کر دیکھو

آپ پہ اپنا اختیار نہیں
جبر ہے ہم پر کس قدر دیکھو

رام باتوں میں تو وہ ہو نہ سکا
نقش و افسوں بھی کوئی کر دیکھو

لخت دل تم نہ سمجھو مژگاں پر
عاشقی کا یہ ہے ثمر دیکھو

وصل ہوتا نہیں بھلا کیوں کر
اپنی ہستی سے تو گزر دیکھو

دیکھتے ہی نہیں تو کیا کہیے
کہیے تب حال کچھ اگر دیکھو

ڈھلتے ہو تم بتاں ادھر دل سے
آج کل جس کے ہاتھ زر دیکھو

عشق بازی سے باز آؤ حسنؔ
چھوڑ دو اپنا یہ ہنر دیکھو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse