غیر سے بد گمان ہو جاتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیر سے بد گمان ہو جاتے
by ریاض خیرآبادی

غیر سے بد گمان ہو جاتے
میری سنتے تو کان ہو جاتے

مہرباں آسمان ہو جاتے
آپ اگر مہربان ہو جاتے

میرے گھر میہمان ہو جاتے
دل میں تم آ کے جان ہو جاتے

جاتے ہم زار اس گلی میں اگر
ذرے بھی آسمان ہو جاتے

پیر فانی کو وقت بادہ کشی
ہم نے دیکھا جوان ہو جاتے

نام میرا جو بزم میں آتا
میرے لاکھوں بیان ہو جاتے

دل تو کہتا ہے لطف وصل یہ تھا
جان من میری جان ہو جاتے

کہتے تیری سی برگ گل بلبل
یہ بھی تیری زبان ہو جاتے

بوسے کیا لے کوئی تصور میں
کہ ہیں رخ پر نشان ہو جاتے

ظلم ڈھاتے جو آتے تربت پر
فرش رہ آسمان ہو جاتے

بادلوں میں جو مے بھری ہوتی
جھک کے اونچی دکان ہو جاتے

شیخ جی مے کدہ وہ جنت ہے
تم بھی جا کر جوان ہو جاتے

پاسباں تو رقیب بن جاتا
ہم ترے پاسبان ہو جاتے

ملتے کم عمر مہ جبیں جو ریاضؔ
ہم ابھی نوجوان ہو جاتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse