غیروں کے ساتھ گاتے جاتے ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیروں کے ساتھ گاتے جاتے ہو
by مرزا اظفری

غیروں کے ساتھ گاتے جاتے ہو
چٹکیوں میں ہمیں اڑاتے ہو

کون استاد مل گیا کامل
کس سے ضربیں یہ سیکھ آتے ہو

نقش کس کا اپر اٹھا منہ پر
اب تو نقشہ نیا بٹھاتے ہو

کبھو سو رہتے ہو دوپٹہ تان
کبھی اک تان مار جاتے ہو

کبھو کرتے ہو جھانجھ آ ہم سے
کبھی جھانجھ اور دف بجاتے ہو

کبھو لڑنے کا تار ہے اور گاہ
تار طبنور پر چڑھاتے ہو

تالی دے تھپڑی مار اور لڑ بھڑ
تھاپ مردنگ پر لگاتے ہو

ہوتی ہے جب کہیں سے دوت دپک
کیوں ہمیں آ کے کھڑکھڑاتے ہو

وعدہ ٹلتا ہے جب تو راہ میں دیکھ
بتی دے مجھ کو گڑگڑاتے ہو

اظفریؔ دوست کو رلا پیارے
دشمنوں کے تئیں ہنساتے ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse