غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
by میر مہدی مجروح

غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا

اک عمر کے دکھ پائے سوتے ہیں فراغت سے
اے غلغلۂ محشر ہم کو نہ جگا جانا

مانگوں تو سہی بوسہ پر کیا ہے علاج اس کا
یاں ہونٹ کا ہل جانا واں بات کا پا جانا

گو عمر بسر اس کی تحقیق میں کی تو بھی
ماہیت اصلی کو اپنی نہ ذرا جانا

کیا یار کی بد خوئی کیا غیر کی بد خواہی
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا

کچھ عرض تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا

اک شب نہ اسے لائے کچھ رنگ نہ دکھلائے
اک شور قیامت ہی نالوں نے اٹھا جانا

چلمن کا الٹ جانا ظاہر کا بہانہ ہے
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا

ہے حق بطرف اس کے چاہے سو ستم کر لے
اس نے دل عاشق کو مجبور وفا جانا

انجام ہوا اپنا آغاز محبت میں
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا

مجروحؔ ہوئے مائل کس آفت دوراں پر
اے حضرت من تم نے دل بھی نہ لگا جانا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse