Jump to content

غیروں کا تو کہنا کیا محرم سے نہیں کہتا

From Wikisource
غیروں کا تو کہنا کیا محرم سے نہیں کہتا
by م حسن لطیفی
323366غیروں کا تو کہنا کیا محرم سے نہیں کہتام حسن لطیفی

غیروں کا تو کہنا کیا محرم سے نہیں کہتا
میں عالم غم اپنا عالم سے نہیں کہتا

پڑھ لیتی ہیں کیفیت کچھ تڑپی ہوئی نظریں
دکھ اپنے میں ہر چشم پر نم سے نہیں کہتا

رہ گیر ہوں میں ایسا ہر غم سے گزرتا ہے
دعوت پہ جو رندان خرم سے نہیں کہتا

موسم ہمہ گردش ہے پس ماندۂ گردش ہے
لب تشنہ کوئی یہ شے کیوں جم سے نہیں کہتا

کسب متحرک سے پابستہ نسب طغرے
یہ کیا ہے کوئی اہل خاتم سے نہیں کہتا

آ داغ محبت کے سانچے میں تجھے ڈھالوں
خاتم سے میں کہتا ہوں درہم سے نہیں کہتا

کچھ بات تھی کہنے کی کچھ بھول گیا اب میں
فطرت سے نہیں کہتا آدم سے نہیں کہتا

کہتے تو نہیں باور نا کہئے تو کافر تر
کہنے کی قسم مجھ کو میں دم سے نہیں کہتا

کہلانے میں خود ان کا کچھ تکملہ نارس ہے
الٹے انہیں شکوے ہیں کیوں ہم سے نہیں کہتا

ہاں میری یہ الجھن تو ہر دل میں کھٹکتی ہے
کچھ مڑ کے کوئی زلف برہم سے نہیں کہتا

کیوں ہو نہ جنوں کم گو جب ہوتا ہے یہ زیرک
دہرائی ہوئی باتیں محرم سے نہیں کہتا

کہنے سے ہوا گہرا کچھ اور غم پنہاں
میں سائے سے کہتا ہوں ہمدم سے نہیں کہتا

جس لمحے سے دیکھا ہے اک شعر سراپا کو
دانستہ کوئی مصرع اس دم سے نہیں کہتا

دیتے ہیں وہ محفل میں یوں داد لطیفیؔ کو
اشعار یہ کیا اکثر مبہم سے نہیں کہتا


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.