غیرت مہر رشک ماہ ہو تم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیرت مہر رشک ماہ ہو تم
by حیدر علی آتش

غیرت مہر رشک ماہ ہو تم
خوب صورت ہو بادشاہ ہو تم

جس نے دیکھا تمہیں وہ مر ہی گیا
حسن سے تیغ بے پناہ ہو تم

کیوں کر آنکھیں نہ ہم کو دکھلاؤ
کیسے خوش چشم خوش نگاہ ہو تم

حسن میں آپ کے ہے شان خدا
عشق بازوں کے سجدہ گاہ ہو تم

ہر لباس آپ کو ہے زیبندہ
جامہ زیبوں کے بادشاہ ہو تم

فوق ہے سارے خوش جمالوں پر
وہ ستارے جو ہیں تو ماہ ہو تم

ہم سے پردہ وہی حجاب کا ہے
کوچہ گردوں سے رو براہ ہو تم

کیوں محبت بڑھائی تھی تم سے
ہم گناہ گار بے گناہ ہو تم

جو کہ حق وفا بجا لائے
شاہد اللہ ہے گواہ ہو تم

ہے تمہارا خیال پیش نظر
جس طرف جائیں سد راہ ہو تم

دونوں بندے اسی کے ہیں آتشؔ
خواہ ہم اس میں ہوویں خواہ ہو تم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse