غیب سے سحرا نوردوں کا مداوا ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیب سے سحرا نوردوں کا مداوا ہو گیا
by امیر اللہ تسلیم

غیب سے سحرا نوردوں کا مداوا ہو گیا
دامن دشت جنوں زخموں کا پھاہا ہو گیا

موت آئی جی گئے چھٹ کر غم و اندوہ سے
یہ نیا مرنا ہے جس کا نام جینا ہو گیا

خود کو بھی دیکھا نہ آنکھیں کھول کر مثل حباب
بحر ہستی میں فقط دم کا دمامہ ہو گیا

یہ زمانہ وہ نہیں منہ سے نکالے حق کوئی
یاد کر منصور پر کیا حشر برپا ہو گیا

صورتیں کیا کیا نہ بدلیں میرے سوز عشق نے
اشک آنکھوں میں بنا ہونٹوں پہ چھالا ہو گیا

ناز سے چھاتی پر اس نے پاؤں جس دم رکھ دیا
دل ہوا ٹھنڈا کلیجہ ہاتھ بھر کا ہو گیا

ہم نے پالا مدتوں پہلو میں ہم کوئی نہیں
تم نے دیکھا اک نظر سے دل تمہارا ہو گیا

کہنے کو مجذوب ہم ہیں دل میں گویا اور ہے
نیک و بد جو کچھ ہمارے منہ سے نکلا ہو گیا

جب سے اے تسلیمؔ کی ہے بیعت دست سبو
دین ساغر ہو گیا ایمان مینا ہو گیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.