غنچے چٹک گئے چمن روزگار کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غنچے چٹک گئے چمن روزگار کے
by قدر بلگرامی

غنچے چٹک گئے چمن روزگار کے
پھوٹے حباب موج نسیم بہار کے

رضواں جو ٹوکے گا در فردوس پر ہمیں
کہہ دیں گے رہنے والے ہیں ہم کوئے یار کے

آنکھیں ترس رہی ہیں مری تیری زلف کو
تارے چمک رہے ہیں شب انتظار کے

آغاز میں بھی ہم کو ہے انجام کا خیال
دھڑکے شباب میں بھی ہیں روز شمار کے

مضمون ہیں ہرن مری بندش کمند ہے
اے قدرؔ شاعری میں مزے ہیں شکار کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse