غنچۂ دل کھلے جو چاہو تم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غنچۂ دل کھلے جو چاہو تم
by واجد علی شاہ

غنچۂ دل کھلے جو چاہو تم
گلشن دہر میں صبا ہو تم

بے مروت ہو بے وفا ہو تم
اپنے مطلب کے آشنا ہو تم

کون ہو کیا ہو کیا تمہیں لکھیں
آدمی ہو پری ہو کیا ہو تم

پستۂ لب سے ہم کو قوت دو
دل بیمار کی دوا ہو تم

ہم کو حاصل کسی کی الفت سے
مطلب دل ہو مدعا ہو تم

یہی عاشق کا پاس کرتے ہیں
کیوں جی کیوں درپئے جفا ہو تم

اسی اخترؔ کے تم ہوے معشوق
ہنسو بولو اسی کو چاہو تم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse