غنچۂ دل مرا کھا کر گل خنداں میرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غنچۂ دل مرا کھا کر گل خنداں میرا
by ولی عزلت

غنچۂ دل مرا کھا کر گل خنداں میرا
بوئے گل سا ہے اڑاتا مجھے جاناں میرا

اپنی گرمی سے برشتہ ہوا حسن رخ یار
لالہ رنگ آتش گل سے ہے گلستاں میرا

کبھو گزرا تھا کوئی آبلہ پا دیکھ وفا
رووے اب لگ ہے لہو خار بیاباں میرا

عشق خورشید رخوں سے جو کیا میں نے جنوں
داغ جوں صبح ہوا چاک گریباں میرا

کیمیا حسن کی ہے منہ تو ذرا اس کو لگا
جام مے سے بھی گیا کیا دل گریاں میرا

چور کر دل کو عنایت کیا سنگیں دشنام
شیشے کو توڑ کے پتھر دیا تاواں میرا

قتل عزلتؔ سے نہ منکر ہو کہ گل کے مانند
لب پہ ہنستا ہے ترے خون نمایاں میرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse