غم یاں تو بکا ہوا کھڑا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم یاں تو بکا ہوا کھڑا ہے
by عبدالرحمان احسان دہلوی

غم یاں تو بکا ہوا کھڑا ہے
فدوی ہے فدا ہوا کھڑا ہے

ہلتا نہیں تیرے در سے یہ عشق
مدت سے ملا ہوا کھڑا ہے

خونیں کفن شہید الفت
دولہا سا بنا ہوا کھڑا ہے

ٹک گوشۂ چشم ادھر بھی کوئی
کونے سے لگا ہوا کھڑا ہے

دامن کا ہے گھیر گرد جاناں
کیوں جی وہ گھرا ہوا کھڑا ہے

یوں دل کو بغل میں میں نے پالا
یہ مجھ پہ پلا ہوا کھڑا ہے

کیا سمجھے نماز عشق ناصح
قبلہ سے بھرا ہوا کھڑا ہے

مجرے کو تمہارے ابروؤں کے
محراب جھکا ہوا کھڑا ہے

میزان نہیں ملتی میری اس کی
غصہ میں پلا ہوا کھڑا ہے

گھر سے تو نکل کہ در پہ احسانؔ
کیا غم میں گھرا ہوا کھڑا ہے

پلکوں سے گری ہے اشک ٹپ ٹپ
پٹ سے وہ لگا ہوا کھڑا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse