غم کو باہم بہم نہ کیجے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم کو باہم بہم نہ کیجے
by میر اثر

غم کو باہم بہم نہ کیجے
گر غم ہے تو غم کا غم نہ کیجے

یک نیم نگہ ہے سو بھی کاری
کچھ اس میں سے تو کم نہ کیجے

گو ہم ہیں عاشق وفادار
پر اتنا بھی ستم نہ کیجے

بے فائدہ روئیے کہاں تک
اب جی میں ہے چشم نم نہ کیجے

غیروں کے پڑھانے کو میرا وصف
اس طور سے یہ کرم نہ کیجے

گو تیغ اصیل ہیں یہ ابرو
ہر دم اتنا بھی خم نہ کیجے

گر جام مے اثرؔ لگے ہاتھ
پھر خواہش جام جم نہ کیجے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse