Jump to content

غم نے باندھا ہے مرے جی پہ کھلا ہائے کھلا

From Wikisource
غم نے باندھا ہے مرے جی پہ کھلا ہائے کھلا
by سراج اورنگ آبادی
294501غم نے باندھا ہے مرے جی پہ کھلا ہائے کھلاسراج اورنگ آبادی

غم نے باندھا ہے مرے جی پہ کھلا ہائے کھلا
پھر نئے سر سیتی آئی ہے بلا ہائے بلا

اے گل گلشن جاں کر مجھے یک بار نہال
خار حسرت کا کلیجے میں سلا ہائے سلا

دیکھ سکتا نہیں میں گل کوں ہر یک خار کے ساتھ
اپنے ہمراہ رقیبوں کوں نہ لا ہائے نہ لا

ذبح کرنے میں مرے رحم نہ لایا اس نے
بلکہ اتنا بھی کہا نیں کہ گلا ہائے گلا

جس نے کھایا ہے تیرے ابروئے خوں ریز کا زخم
مرغ بسمل سا لہو بیچ رلا ہائے رلا

جان جاناں کوں مرے پاس شتابی لاؤ
نیں تو یک پل میں مرا جان چلا ہائے چلا

بے طرح اب تو برہ آگ دہکتی ہے سراجؔ
دل مرا کیوں نہ پکارے کہ جلا ہائے جلا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.