غم میں عہد شباب جاتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم میں عہد شباب جاتا ہے
by میر کلو عرش

غم میں عہد شباب جاتا ہے
آسماں خاک میں ملاتا ہے

کون گل بہر سیر آتا ہے
باغ پھولا نہیں سماتا ہے

عرش پر بھی غبار جاتا ہے
دل جو وحشت میں خاک اڑاتا ہے

جان دیتا ہے سبزۂ خط پر
خضر ہر روز زہر کھاتا ہے

تیغ قاتل جو ہو گئی بے آب
زخم پانی مگر چراتا ہے

زندے مرتے ہیں مردے جیتے ہیں
جب وہ رشک مسیح گاتا ہے

سحر شام وصل ہے شب گور
موت آتی ہے یار جاتا ہے

اچھی پڑتی ہے جب کوئی تلوار
دہن زخم مسکراتا ہے

خون عشاق کا اٹھا بیڑا
بے سبب کب وہ پان کھاتا ہے

جگر سنگ ہو جہاں پانی
وہ وہاں مجھ کو آزماتا ہے

تو جو گل ہے تو میں بھی شبنم ہوں
مجھے ہنسنا ترا رلاتا ہے

خوش یہ مرنے سے ہوں مرا لاشہ
گور میں بھی نہیں سماتا ہے

لالۂ کوہ سے ہوا ثابت
خون فریاد جوش کھاتا ہے

لاکھ تقلید کیجئے اے عرشؔ
پر کب انداز میرؔ آتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse