غم مرا دشمن جانی ہے کہو یا نہ کہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم مرا دشمن جانی ہے کہو یا نہ کہو
by عشق اورنگ آبادی

غم مرا دشمن جانی ہے کہو یا نہ کہو
میرے آنسو کی زبانی ہے کہو یا نہ کہو

رات پروانے کے ماتم میں گداز دل سے
شمع کی اشک فشانی ہے کہو یا نہ کہو

غنچۂ گل کے تئیں دیکھتے ہی ہم نے کہا
دل پر خوں کی نشانی ہے کہو یا نہ کہو

ماتھا گھسنے سے مرے مہر جبیں کے در پر
صبح کی اجلی پیشانی ہے کہو یا نہ کہو

میت عشق کا گر دیکھو رخ نورانی
مغفرت کی یہ نشانی ہے کہو یا نہ کہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse