غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں
by الطاف حسین حالی

غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں
شادی وصل بھی عاشق کو سزاوار نہیں

خوبروئی کے لیے زشتی خو بھی ہے ضرور
سچ تو یہ ہے کہ کوئی تجھ سا طرح دار نہیں

قول دینے میں تامل نہ قسم سے انکار
ہم کو سچا نظر آتا کوئی اقرار نہیں

کل خرابات میں اک گوشہ سے آتی تھی صدا
دل میں سب کچھ ہے مگر رخصت گفتار نہیں

حق ہوا کس سے ادا اس کی وفاداری کا
جس کے نزدیک جفا باعث آزار نہیں

دیکھتے ہیں کہ پہنچتی ہے وہاں کون سی راہ
کعبہ و دیر سے کچھ ہم کو سروکار نہیں

ہوں گے قائل وہ ابھی مطلع ثانی سن کر
جو تجلی میں یہ کہتے ہیں کہ تکرار نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse