غم فراق مے و جام کا خیال آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم فراق مے و جام کا خیال آیا
by شاد عظیم آبادی

غم فراق مے و جام کا خیال آیا
سفید بال لیے سر پہ اک وبال آیا

ملے گا غیر بھی ان کے گلے بہ شوق اے دل
حلال کرنے مجھے عید کا ہلال آیا

اگر ہے دیدۂ روشن تو آفتاب کو دیکھ
ادھر عروج ہوا اور ادھر زوال آیا

لٹائے دیتے ہیں ان موتیوں کو دیدۂ شوق
بھر آئے اشک کہ مفلس کے ہاتھ مال آیا

لگی نسیم بہاری جو معرفت گانے
گلوں پہ کچھ نہیں موقوف سب کو حال آیا

پیام بر کو عبث دے کے خط ادھر بھیجا
غریب اور وہاں سے شکستہ حال آیا

خدا خدا کرو اے شادؔ اس پہ نخوت کیا
جو شاعری تمہیں آئی تو کیا کمال آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse