غم سے کہیں نجات ملے چین پائیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم سے کہیں نجات ملے چین پائیں ہم
by داغ دہلوی

غم سے کہیں نجات ملے چین پائیں ہم
دل خون میں نہائے تو گنگا نہائیں ہم

جنت میں جائیں ہم کہ جہنم میں جائیں ہم
مل جائے تو کہیں نہ کہیں تجھ کو پائیں ہم

جوف فلک میں خاک بھی لذت نہیں رہی
جی چاہتا ہے تیری جفائیں اٹھائیں ہم

ڈر ہے نہ بھول جائے وہ سفاک روز حشر
دنیا میں لکھتے جاتے ہیں اپنی خطائیں ہم

ممکن ہے یہ کہ وعدے پر اپنے وہ آ بھی جائے
مشکل یہ ہے کہ آپ میں اس وقت آئیں ہم

ناراض ہو خدا تو کریں بندگی سے خوش
معشوق روٹھ جائے تو کیونکر منائیں ہم

سر دوستوں کا کاٹ کے رکھتے ہیں سامنے
غیروں سے پوچھتے ہیں قسم کس کی کھائیں ہم

کتنا ترا مزاج خوشامد پسند ہے
کب تک کریں خدا کے لیے التجائیں ہم

لالچ عبث ہے دل کا تمہیں وقت واپسیں
یہ مال وہ نہیں کہ جسے چھوڑ جائیں ہم

سونپا تمہیں خدا کو چلے ہم تو نامراد
کچھ پڑھ کے بخشنا جو کبھی یاد آئیں ہم

سوز دروں سے اپنے شرر بن گئے ہیں اشک
کیوں آہ سرد کو نہ پتنگے لگائیں ہم

یہ جان تم نہ لوگے اگر آپ جائے گی
اس بے وفا کی خیر کہاں تک منائیں ہم

ہمسائے جاگتے رہے نالوں سے رات بھر
سوئے ہوئے نصیب کو کیونکر جگائیں ہم

جلوہ دکھا رہا ہے وہ آئینۂ جمال
آتی ہے ہم کو شرم کہ کیا منہ دکھائیں ہم

مانو کہا جفا نہ کرو تم وفا کے بعد
ایسا نہ ہو کہ پھیر لیں الٹی دعائیں ہم

دشمن سے ملتے جلتے ہیں خاطر سے دوستی
کیا فائدہ جو دوست کو دشمن بنائیں ہم

تو بھولنے کی چیز نہیں خوب یاد رکھ
اے داغؔ کس طرح تجھے دل سے بھلائیں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse