غم سے نا اہل وفا حشر تک آزاد نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم سے نا اہل وفا حشر تک آزاد نہ ہو
by بیتاب عظیم آبادی

غم سے نا اہل وفا حشر تک آزاد نہ ہو
مر کے سو بار ہو زندہ تو کبھی شاد نہ ہو

اس نشیمن میں دھرا کیا ہے کہ برباد نہ ہو
چار تنکے ہوں پڑے اور کوئی بنیاد نہ ہو

کیا کہا تھا تری آنکھوں نے نظر ملتے وقت
پھر نظر مجھ سے ملا لے جو تجھے یاد نہ ہو

کوئی گاہک نہیں مرجھائے ہوئے پھولوں کا
کسی سینے میں الٰہی دل ناشاد نہ ہو

خوش ہو بلبل کہ سزاوار اسیری ٹھہری
وائے اس پر ہے کہ جس کا کوئی صیاد نہ ہو

تیری آنکھوں کا جو مارا نہیں زندہ ہی نہیں
ہے وہی عین غلط جس پہ ترا صاد نہ ہو

سامنے آ گئی ہے منزل پا لغز فراق
مدد اے عشق کوئی راہ میں افتاد نہ ہو

جو غبار اٹھتا ہے کہتا ہے بآواز بلند
سر نہ اس خاک کا اونچا ہو جو برباد نہ ہو

دل شکستہ نہ ہو ٹوٹے گا قفس خود بیتابؔ
وقت کی بات ہے ممکن نہیں آزاد نہ ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse